2013-06-15

آداب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم

0 تبصرے
آداب رحمة للعالمين



آداب رحمت عالم e



اعداد:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
کاشانۂ خلیق، اٹوا بازار،سدھارتھ نگر،یوپی
داعی احساء اسلامک سینٹر،سعودی عرب



مقدمہ
آداب وحقوق کے علم کی اہمیت کسی صاحب نظر سے مخفی نہیں ، پھر اگر ان کا تعلق اس کائنات کی عظیم ترین ہستی، رحمت عالم، خاتم انبیاء، سید البشر محمد مصطفی e  سے ہو تو ظاہر ہے کہ اس کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس موضوع کی اسی عظیم الشان اہمیت کی بنا پر قرآن مجید واحادیث صحیحہ میں بے شمار مقامات پر ان کی تاکید آئی ہے۔ ان حقوق وآداب کی صحیح معرفت نہ ہونے کی بنا پر جہاں ایک طرف درست روش چھوٹ جاتی ہے وہیں دوسری طرف ایک انسان یاتو جفا اور کوتاہی کا مرتکب ہوجاتا ہے یا پھر غلو اور حد سے تجاوز کا شکار بن جاتا ہے۔
آج کے پرآشوب دور میں جب کہ ہم بہت سارے داخلی اور خارجی فتنوں کا سامنا کررہے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق وآداب کی صحیح معرفت حاصل کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ ہم جہالت کے اس برے انجام سے محفوظ رہ سکیں جن کی نشاندہی مختصر طور سے اوپر کی گئی ہے۔
آداب رحمت عالم e کے موضوع پر ناچیز نے یہ چند صفحات تیار کئے ہیں اگر یہ کسی بھائی کے کام آجائیں تو یہ میرے لئے کافی سعادت اور خوش نصیبی کی بات ہے۔
راقم نے کوشش کی ہے کہ علمائے سلف کے منہج کے مطابق قرآنی آیات اور صحیح احادیث کی روشنی میں موضوع کو سمجھا جائے۔ اگر ہم اپنی اس کوشش میں کامیاب ہیں تو یہ ہمارے رب کا فضل عظیم ہے اور اگر ہم سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو ہم اپنے ہر اس قول وفعل سے اپنی براءت اور توبہ کا اعلان کرتے ہیں جو اللہ کی ناراضگی کا سبب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین برحق کے خلاف ہے۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس مختصر رسالہ کو فروغ عطا فرمائے اور اس کے مشمولات کو اپنے بندوں کی ہدایت اور اصلاح کا سبب بنائے اور اسے ہمارے لئے  دین ودنیا کی سعادت کا باعث ، ہمارے لئے، ہمارے والدین اور اساتذہ کے لئے صدقہ جاریہ بنائے،اور بروز قیامت میزان عمل کو وزنی کرنے کا  اور جہنم سے نجات کا ذریعہ بنائے۔آمین
دعاگو:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
کاشانۂ خلیق ۔ اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر ۔ یوپی۔انڈیا
داعیہ دفتر تعاون  برائے دعوت وارشاد وتوعیۃ الجالیات ،احساء
ص ب ۲۰۲۲ ہفوف۔ الاحساء ۳۱۹۸۲
مملکت سعودی عرب
۱۴۳۲ھ مطابق ۲۰۱۱ء



رحمت عالم e کی عظمت
رحمت عالم e سرزمین عرب میں شہر مکہ کے اندر خاندان بنوہاشم اور قبیلۂ قریش میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام نامی ونسب گرامی مختصراً یہ ہے:
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف جو اسماعیل بن ابراہیم o کی نسل سے تھے۔
رحمت عالم e کی عظمت شان نرالی ہے۔  اللہ تعالی نے آپ کو جس بلند وبالا مقام پر فائز کیا اور اپنے بندوں میں جس مقبولیت ومحبوبیت سے سرفراز فرمایا اس تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ آپ اولاد آدم کے سردار ہیں۔ روز محشر میں آدم علیہ السلام سے لے کر آخری انسان تک سب آپ کے پرچم تلے ہوں گے۔ شفاعت عظمی[[1]] والے بھی آپ ہیں اور مقام محمود[[2]] والے بھی آپ ہی ہیں اور مقام وسیلہ[[3]] والے بھی آپ ہیں۔
آپ وہ ہیں جن  کے اخلاق عظیم کی خود رب ذوالجلال نے گواہی دی ہے۔ فرمایا: ﴿وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ [القلم:۴] (اور بے شک آپ بڑے عمدہ اخلاق کے مالک ہیں) نیز آپ کے ذکر مبارک کو رب کریم نے رفعت وسربلندی سے ہمکنار کردیا۔ ارشاد ہے: ﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾ [الشرح:۴] (اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا) آپ e کا نام اللہ کے نام کے ساتھ جوڑا گیا۔ کلمۂ شہادت میں اگر ایک طرف رب کے توحید کی شہادت ہے تو دوسری طرف آپ کی رسالت وعبدیت  کی شہادت ہے۔ کوئی شخص اس وقت تک دائرہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ کی توحید کے اقرار کے ساتھ ساتھ آپ کی رسالت کا اقرار نہ کرے۔ اذان میں، اقامت میں، جمعہ اور عیدین کے خطبوں میں، خطبۂ نکاح میں، صلاۃ جنازہ میں، غرضیکہ متعدد اہم مقامات پر کلمۂ شہادت کا تذکرہ اور تکرار کیا جاتا ہے۔
آپ وہ ہیں کہ قرآن پاک کے اندر اللہ تعالی نے آپ کی زندگی کی قسم کھائی ہے، ارشاد ہے: ﴿لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ﴾ [الحجر: ۷۲] [تیری عمر کی قسم! وہ تو اپنی بدمستی میں سرگرداں تھے]۔
امام طبری نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ معزز کوئی ہستی پیدا نہیں فرمائی اور نہ میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کے علاوہ کسی اور کی زندگی کی قسم کھائی ہو)[4](۔
آپ وہ ہیں کہ اللہ تعالی نے پیدائش کے وقت سے ہی آپ کی برکتوں کا ظہور فرمایا۔آپ کی ماں آمنہ نے آپ کی برکتیں دیکھیں، آپ کو دودھ پلانے والی خاتون حلیمہ سعدیہ نے آپ کی برکتیں دیکھیں۔
حسن سیرت وجمال صورت میں بھی اللہ تعالی نے آپe کو بے مثال بنایاتھا، آپ کا رخ زیبا ماہتاب کی طرح دمکتا تھا، آپ کی ہتھیلیاں ریشم سے زیادہ نرم تھیں، آپ کا پسینہ اور آپ کے بدن سے نکلنے والی خوشبو مشک وعنبر سے زیادہ عطربیز تھی۔
آپ وہ ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو جامع کلمات سے نوازا تھا، آپ کی احادیث مختصر الفاظ پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن ان  میں معانی کا ایک دریا موجزن ہوتا ہے۔ قیامت تک آپ کی احادیث کی شرحیں کی جاتی رہیں گی پھر بھی تشنگی محسوس کی جائے گی۔
آپ وہ تھے کہ انبیاء سابقین نے آپ کی آمد کی خوشخبری سنائی تھی، آپ کی بعثت کے لئے ابراہیم خلیل نے دعا مانگی تھی، آپ کی نوید عیسیٰ مسیح نے دی تھی۔
آپ وہ ہیں کہ سارے نبیوں سے آپ کے لئے عہد لیا گیا تھا، آپ تمام انس وجن کی طرف نبی ورسول بناکر مبعوث کئے گئے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا﴾ [سبأ: ۲۸] (ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے) نیز ارشاد ہے: ﴿وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ﴾ [الأحقاف:۲۹] (اور یاد کرو جب کہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو آپ کی طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں، پس جب (نبی e کے پاس) پہنچ گئے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے خاموش ہوجاؤ پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لئے واپس لوٹ گئے۔)
آپ وہ ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنا خلیل بنایا تھا، صحیح مسلم کی حدیث ہے: «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا([5](بے شک اللہ تعالی نے مجھے اپنا خلیل بنایا ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا تھا)۔
آپ وہ ہیں کہ جن پر اللہ اور اس کے ملائکہ صلاۃ بھیجتے ہیں اور جن پر صلاۃ وسلام بھیجنے کا حکم قرآن پاک میں خود اللہ نے دیا ہے۔ ارشاد ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ [الأحزاب:۵۶] (اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر صلاۃ)[6]( بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم بھی ان پر صلاۃ بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو)۔
آپ وہ ہیں کہ اللہ نے آپ کو سارے اہل ایمان کے لئے اسوہ اور قدوہ بنایا ہے: ارشاد ہے: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ [الأحزاب:۲۱] (یقیناً تمھارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ [موجود] ہے)۔
آپ وہ ہیں کہ توریت وانجیل میں آپ کا ذکر جمیل موجود ہے: ﴿الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ﴾ [الأعراف:۱۵۷] (جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں)۔
آپ وہ ہیں کہ آپ کی عظمتوں کے گواہ صرف دوست ہی نہیں بلکہ دشمن بھی ہیں، صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیرمسلموں کی ایک بڑی تعداد ہے جو آپ کی مدح سرائی اور ثناخوانی میں رطب اللسان ہیں۔
جو لوگ آپ e سے چڑھتے ہیں ان کے چڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ آپ سے محبت کیوں کرتے ہیں، کیوں آپ کے دین میں داخل ہونے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، کیوں دین اسلام اور قرآن مجید تحریف سے محفوظ ہے، کیوں اسلام کی تعلیمات نہایت آسانی سے دل میں اترجاتی ہیں۔!!
ہمارا ان دشمنان اسلام سے یہ کہنا ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں  کہ محمد e سے ایسی بے پناہ محبت نہ ہو اور آپ کے لئے یہ جذبۂ فدایئت نہ ہو تو ذرا  کوئی اور ایسا محبوب لائیں تو سہی جسے محمد e کی نظیر بنایا جاسکے۔!!
محمد e سے محبت کیوں نہ کی جائے، آپ ہی تو ہیں جنھوں نے:
×    بندوں کو اللہ سے جوڑا، انھیں رب کی سچی توحید سکھائی، ہرطرف سے کاٹ کر خالق کا بندہ بنایا، ہرکفر وشرک سے ہٹاکر صراط مستقیم پر گامزن کیا۔ بندوں کے دلوں میں اللہ کی محبت، اللہ کا خوف، اللہ پر توکل اور اللہ سے امید جیسی قلبی عبادتوں کی تخم ریزی کی، اللہ سے طلب اور اسی سے استعانت واستغاثہ، دعا وفریاد نیز اسی کے لئے نذر ونیاز اور ذبح وقربانی کی تعلیم دی۔
×    آپ ہی تو ہیں جنھوں نے قلب وروح اور جسم وجان کی طہارت کی تعلیم دی اور طہارت کو نصف ایمان قرار دیا۔
×    آپ ہی تو ہیں جنھوں نے صلاۃ وزکاۃ، صوم وحج اور دیگر بے مثال عبادات کی رہنمائی کی جس کے ذریعہ حقیقی سکون واطمینان اور سعادت ومسرت سے ہمکنار کیا۔
×    آپ ہی تو ہیں جو بے مثال اخلاق اور عظیم الشان خوبیوں میں ہمارے لئے عمدہ نمونہ ہیں، سب سے بڑے بہادر، سب سے بڑے عاقل ودانا، سب سے بڑھ کر سخی اور فیاض، عفو ودرگذر کے پیکر، سب سے زیادہ حیادار، امانت دار اور راست باز، سب سے زیادہ تکبر سے دور اور متواضع، سب سے زیادہ عہد کے پابند، چہرے پر ہمیشہ بشاشت، الغرض آپ بے نظیر صفات کمال سے آراستہ تھے۔ اپنی امت پر بے انتہا شفقت فرمانے والے اور ان کی بھرپور ہمدردی وخیرخواہی کرنے والے تھے۔
×    آپ ہی تو ہیں جنھوں نے انسانیت کو جہالت کی راہ سے نکال کر علم کی راہ پر ڈالا، اندھیروں سے نکال کر اجالے کی راہ پر لگایا، موت کے منہ سے نکال کر زندگی عطاکی، اندھوں کو بینا اور بہروں کو شنوا کیا، جہنم کی راہ پر بگٹٹ دوڑنے والوں کو جنت کی شاہراہ پر ڈالا، شراب خوری، زناکاری، بدکاری، سٹہ بازی، جنگ وخونریزی اور بدترین جاہلیت سے نکال کر ایمان واسلام، اخلاق وآداب، امن وآشتی اور صالحیت کا پیکر بنایا۔
×    آپ ہی تو ہیں جن کے وسیع احسانات اور جن کی کشادہ رحمتیں صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جناتوں پر بھی ہیں، صرف اپنوں پر نہیں بلکہ بیگانوں پر بھی ہیں، صرف مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ غیرمسلموں پر بھی ہیں، صرف مردوں پر ہی نہیں بلکہ عورتوں اور بچوں پر بھی ہیں، صرف چوپایوں پر ہی نہیں بلکہ چرند وپرند اور کیڑے مکوڑوں پر بھی ہیں، امیر وغریب، طاقتور اور کمزور سب کو آپ کی رحمت کے خزانے سے کچھ نہ کچھ ضرور حصہ ملا ہے۔ سچ ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ﴾ [الأنبياء:۱۰۷] (اور ہم [اللہ تعالی] نے آپ کو سارے جہان والوں کے لئے رحمت بناکر ہی بھیجا ہے)۔
لوگو! اگر اس ذات سے محبت نہ کی جائے گی تو پھر کس سے کی جائے گی۔!!!
لیکن یاد رکھو محبت صرف زبانی دعوے کا نام نہیں ، وہ ایک ایسا شعوری قلبی عمل ہے جس کے اثرات انسان کے عمل وکردار پر نمایاں ہوتے ہیں۔ محبت آپ e کے آداب بجالانے اور آپ e کے حقوق کی ادائیگی کا نام ہے۔ یہی وہ محبت ہے جو اللہ کے نزدیک قابل قبول اور دنیا وآخرت میں باعث فوز وفلاح اور راز سعادت ونجات ہے۔
آئندہ سطور میں ہم آپ e کے حقوق وآداب کا تذکرہ کریں گے۔



رحمت عالم e کے حقوق
پہلا حق:
آپ e کی نبوت ورسالت پر ایمان لانا
آپ e کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا حق یہ ہے کہ آپ پر ایمان لائیں۔ ارشاد باری ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّكُمْ فَآمِنُوا خَيْرًا لَكُمْ﴾ [النساء:۱۷۰] (اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے حق لے کر رسول آگیا ہے پس تم ایمان لاؤ تاکہ تمھارے لئے بہتری ہو)۔
آپ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے لائے ہوئے پورے دین پر ایمان لائیں، اور اس بات کا اقرار کریں کہ آپ تمام انسان وجنات ہرایک کے لئے اللہ کا رسول تھے، سب پر آپ کی اطاعت ضروری ہے، اب جنت میں جانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے آپ e کی لائی ہوئی روشن شریعت کی پیروی۔
آپ e کا فرمان ہے: «وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ([7] (اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد e کی جان ہے، اگر اس امت کا کوئی شخص خواہ یہودی ہو یا نصرانی میرے بارے میں سنے اس کے باوجود میری طرف بھیجی ہوئی شریعت پر ایمان لائے بغیر مرجائے تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا)۔
آپ e پر ایمان لانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کو آخری رسول تسلیم کیا جائے اور یہ یقین کیا جائے کہ آپ کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والے جھوٹے ہیں۔ ارشاد باری ہے: ﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ﴾ [الأحزاب:۴۰] (محمد e تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کے ختم کرنے والے)۔
آپ e کا فرمان ہے: «وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي([8]. (مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہے، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے)۔
نیز حدیث ہے : «إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّينَ([9])»۔ (میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس طرح ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر کی تعمیر کی اسے بہت حسین وجمیل بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ باقی رہ گئی، جو لوگ اس گھر کو دیکھتے ہیں تعجب سے کہتے ہیں : یہ اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی، آپ e نے فرمایا : میں وہ (آخری) اینٹ ہوں اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہے)۔
آپe  پر ایمان کا مطلب یہ بھی ہے کہ دین آپ پر مکمل ہوچکا ہے اور آپ نے شریعت کا ہر حکم امت تک پہنچادیا ہے، اب دین میں کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔ ارشاد ہے: ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ [المائدة:۳] (آج  میں نے تمھارے لئے تمھارے دين کو کامل کرديا، اور تم پر اپنا انعام بھرپور کرديا، اور تمھارے لئے اسلام کے دين ہونے پر رضامند ہوگيا)۔
ایک طرف اس آیت کے نزول سے تکمیل دین کا اعلان ہوا، دوسری طرف آپ e نے صحابہ سے گواہی لی کہ آپ نے دین کو ان تک پہنچادیا ہے چنانچہ حجۃ الوداع میں سب کو گواہ بنایا اور آسمان کی طرف انگلی اٹھاکر اللہم اشہد کہہ کر اللہ کو بھی گواہ بنایا۔
آپ پر ایمان لانے کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ کی عصمت پر ایمان رکھا جائے، عصمت کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے دین کی تبلیغ میں آپ سے کہیں کوئی غلطی نہیں ہوئی۔آپ نے جو کچھ فرمایا وہ بالکل برحق ہے۔ ارشاد ہے: ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى * إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى﴾ [النجم: ۳، ۴] (وہ اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے، وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے)۔
نیز ارشاد ہے: ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ* لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ * ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ﴾ [الحاقۃ:۴۴-۴۶] (اور اگر یہ ہم پر کوئی بھی بات بنالیتے، تو البتہ ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے، پھر ان کی شہ رگ کاٹ دیتے)۔
نیز ارشاد ہے: ﴿قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ﴾ [يونس:۱۵] (وہ لوگ جن کو ہمارے پاس آنے کی امید نہیں ہے یوں کہتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی دوسرا قرآن لائیے یا اس میں کچھ ترمیم کردیجئے، آپ یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کردوں، بس میں تو اسی کا اتباع کروں گا جو میرے پاس وحی کے ذریعہ سے پہنچا ہے، اگر  میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں)۔
نیز حدیث میں آیا ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ, فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ, وَقَالُوا: أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا, فَأَمْسَكْتُ عَنْ الْكِتَابِ, فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ, فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِيهِ فَقَالَ: «اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ»([10]).
(عبداللہ بن عمرو t سے روایت ہے کہ میں ہروہ چیز لکھ لیا کرتا تھا جو رسول اللہ e سے سنتا تھا، میں اسے یاد کرنا چاہتا تھا، مجھے قریش نے روک دیا، وہ کہنے لگے کیا تم وہ سب کچھ لکھ لیا کرتے ہو جو سنتے ہو حالانکہ رسول اللہ e ایک بشر ہیں آپ کی کوئی بات غصہ کی حالت کی ہوتی ہے اور کوئی حالت رضا کی، چنانچہ میں نے لکھنا بند کردیا، پھر میں نے یہ بات رسول اللہ e سے ذکر کی تو آپ نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے صرف حق ہی نکلتا ہے)۔
عصمت پر ایمان کا مفہوم یہ بھی ہے کہ آپ e نبوت سے پہلے اور بعد ہمیشہ کفر وشرک سے محفوظ رہے۔ ایسے ہی آپ ہمیشہ جھوٹ نیز دیگر کبیرہ گناہوں سے بھی محفوظ رہے۔ اللہ تعالی نے آپ کی حفاظت فرمائی۔
جہاں تک آپ e سے غلطی کے امکان کا سوال ہے تو اس سلسلہ میں صحیح عقیدہ یہ ہے کہ آپ سے غلطی ہوسکتی تھی لیکن اللہ تعالی نے کبھی آپ کو اس غلطی پر باقی نہیں رکھا، آپ کو حق کی رہنمائی کی، اور کبھی تو عتاب بھی کیا۔ البتہ اسے معصیت نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایسا کہنا بے ادبی ہے نیز نبی کریم e نے کوئی غلطی دانستہ طور پر نہیں کی بلکہ بطور اجتہاد کی ہے، ایسی غلطی جو بھی ہوئی اس سے آپ کے مقام ومرتبہ میں کوئی کمی واقع ہونے والی نہیں ہے کیونکہ آپ e تو بخشے بخشائے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا * لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا﴾ [الفتح:۱، ۲] )بیشک (اے نبی) ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے ۔ تاکہ جو کچھ تیرے گناه آگے ہوئے اور جو پیچھے سب کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے، اور تجھ پر اپنا احسان پورا کر دے اور تجھے سیدھی راه چلائے(۔ 
آپ e سے غلطی کے امکان ووقوع کے مسئلہ پر سورہ عبس اور دیگر آیات دلیل ہیں، نیز یہ حدیث بھی دلیل ہے: «إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، وَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلاَ يَأْخُذْ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ»([11]).
آپ e نے ارشاد فرمایا: «میں ایک انسان ہی ہوں، تم میرے پاس اپنے جھگڑے لاتے ہو [فیصلہ کروانے لے لئے] شاید تم میں سے کوئی اپنی حجت پیش کرنے میں دوسرے کی بہ نسبت زیادہ تیززبان ہو اور میں اپنے سننے کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کردوں سو اگر میں نے کسی کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ کردیا حالانکہ درحقیقت وہ اس کا نہیں بلکہ اس کے بھائی کا حق ہے تو اسے ہرگز نہ لے کیونکہ میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہاہوں»۔
حدیث کے الفاظ اس بات کا واضح اعلان کررہے ہیں کہ بسااوقات نبی e سے بھی وہ فیصلہ صادر ہوسکتا ہے جس سے ایک شخص کو ایسی چیز مل جائے جس کا وہ حقدار نہیں، ایسی صورت میں کسی کے لئے نبی e کے فیصلہ کو اپنے برحق ہونے کی دلیل بنانا درست نہ ہوگا۔



دوسرا حق:
آپ e کی اطاعت واتباع کرنا
اتباع رسول e کا حکم قرآن مجید میں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع وہ شرعی حکم ہے جس کی تاکید قرآن مجید میں بار بار آئی ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ ﴾ [آل عمران:۳۲] (کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منھ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔
مذکورہ آیت میں اللہ اور اس کے رسول e کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منہ پھیرنے پر سخت وعید وتہدید سنائی گئی ہے۔
نیز ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ﴾ [النور:۵۲] )جو بھی اللہ تعالیٰ کی، اس کے رسول کی فرماں برداری کریں، خوف الٰہی رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہی نجات پانے والے ہیں(۔
مذکورہ آیت میں اللہ اور اس کے رسول e کی اطاعت اور اللہ کا تقوی وخشیت اختیار کرنے پر فوز وفلاح کا مژدہ سنایا گیا ہے۔
نیز ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا﴾ [الأحزاب:۷۱] )اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی(۔
ایک اور آیت میں اللہ تعالی نے قسمیہ طور پر ان لوگوں کے مومن نہ ہونے کی بات فرمائی جو اپنے اختلافی مسائل کو رسول e کے دربار میں پیش کرکے اس کا فیصلہ بخوشی نہیں اپناتے چنانچہ ارشاد ہے: ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا [النساء:۶۵] )سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں(۔
ایک اور آیت میں اللہ تعالی نے اہل ایمان کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف کسی اختلاف کے حل کے لئے بلائے جانے پر اپنی سمع وطاعت کا اعلان کرتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں چنانچہ ارشاد ہے: ﴿إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ [النور:۵۱] )ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کردے تو وه کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں(۔
نیز ارشاد ہے: ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا﴾ [الأحزاب:۳۶] )اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا(۔
غرضیکہ اس معنی ومفہوم کی بے شمار آیات ہیں۔



اتباع رسول e کا حکم احادیث میں:
اتباع رسول e  کی ترغیب دینے والی احادیث بکثرت ہیں۔ چند احادیث پر ہم ایک نظر ڈالتے ہیں:-
نبی کریم e کا ارشاد ہے: « كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ؛ وَمَنْ يَأْبَى؟ قَالَ: « مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ, وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى». ([12]).
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! انکار کون کرے گا؟ فرمایا کہ جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا»۔
حدیث مذکور میں ترک اتباع کو دخول جنت سے انکار کے مرادف قرار دیا گیا ہے۔
ایک اور حدیث میں اتباع کی اہمیت کو کچھ انداز سے اجاگر کیا گیا ہے۔ حدیث ملاحظہ کیجئے۔
عرباض بن ساریہ t  سے روایت ہے کہ رسول اللہe  نے ہم کو صلاة فجر پڑھائی،پھر ہم کو ایک بلیغ نصیحت فرمائی جس سے آنکھیں بہہ پڑیں اور دل دہل گئے۔ کسی نے کہا : اے اللہ کے رسول !گویا یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے لہذا آپ ہمیں وصیت فرمایئے۔ آپ eنے فرمایا : «أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ كَانَ عَبْدًا حَبَشِيًّا، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي يَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا،وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»([13]).
«میں تمھیں الله  کے تقوی اور سمع وطاعت کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ تم میں سے جومیرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارا اختلاف دیکھے گا، لہذا تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوطی کے ساتھ تھام لو، اسے دانتوں سے مضبوط جکڑلو، اور اپنے آپ کو نئی ایجادشدہ چیزوں سے بچاؤ،اس لئے کہ ہر ایجاد شدہ چیز بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے»۔
                اللہ کے نبی e نے اپنی اطاعت کی ترغیب کے لئے مثالیں دے کر بھی سمجھایا ہے۔
                نبی e نے فرمایا: « إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ مَا بَعَثَنِيَ اللهُ بِهِ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَى قَوْمَهُ، فَقَالَ: يَا قَوْمِ إِنِّي رَأَيْتُ الْجَيْشَ بِعَيْنَيَّ، وَإِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْعُرْيَانُ، فَالنَّجَاءَ، فَأَطَاعَهُ طَائِفَةٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَأَدْلَجُوا فَانْطَلَقُوا عَلَى مُهْلَتِهِمْ، وَكَذَّبَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَأَصْبَحُوا مَكَانَهُمْ، فَصَبَّحَهُمُ الْجَيْشُ فَأَهْلَكَهُمْ وَاجْتَاحَهُمْ، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِي وَاتَّبَعَ مَا جِئْتُ بِهِ، وَمَثَلُ مَنْ عَصَانِي وَكَذَّبَ مَا جِئْتُ بِهِ مِنَ الْحَقِّ »([14]). 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «میری اور جس دعوت کے ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اس کی مثال ایک ایسے شخص جیسی ہے جو کسی قوم کے پاس آئے اور کہے اے قوم! میں نے ایک لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں ننگ دھڑنگ تم کو ڈرانے والا ہوں ، پس بچاؤ کی صورت کرو تو اس قوم کے ایک گروہ نے بات مان لی اور رات کے شروع ہی میں نکل بھاگے اور حفاظت کی جگہ چلے گئے۔ اس لیے نجات پا گئے لیکن ان کی دوسری جماعت نے جھٹلایا اور اپنی جگہ ہی پر موجود رہے ، پھر صبح سویرے ہی دشمن کے لشکر نے انہیں آ لیا اور انہیں مارا اور ان کو برباد کر دیا۔ تویہ مثال ہے ان کی جو میری اطاعت کریں اور جو دعوت میں لایا ہوں اس کی پیروی کریں اور ان کی مثال ہے جو میری نافرمانی کریں اور جو حق میں لے کر آیا ہوں اسے جھٹلائیں»۔
                دوسری حدیث میں آپ e نے ایک اور مثال دے کر بات سمجھائی ہے۔ «عن جَابِر بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: " جَاءَتْ مَلاَئِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِمٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ العَيْنَ نَائِمَةٌ، وَالقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلًا، فَاضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ العَيْنَ نَائِمَةٌ، وَالقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا، وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ دَاعِيًا، فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ المَأْدُبَةِ، وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ المَأْدُبَةِ، فَقَالُوا: أَوِّلُوهَا لَهُ يَفْقَهْهَا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ العَيْنَ نَائِمَةٌ، وَالقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: فَالدَّارُ الجَنَّةُ، وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ»([15]).
«جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چند فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جب کہ آپ سوئے ہوئے تھے۔ ایک نے کہا کہ یہ سوئے ہوئے ہیں ، دوسرے نے کہا کہ ان کی آنکھیں سو رہی ہیں لیکن ان کا دل بیدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے ان صاحب (رسول صلی اللہ علیہ وسلم( کی ایک مثال ہے پس ان کی مثال بیان کرو۔ تو ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ سو رہے ہیں۔ دوسرے نے کہا کہ آنکھ سو رہی ہے اور دل بیدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور وہاں کھانے کی دعوت کی اور بلانے والے کو بھیجا ، پس جس نے بلانے والے کی دعوت قبول کرلی وہ گھر میں داخل ہو گیا اور دسترخوان سے کھایا اور جس نے بلانے والے کی دعوت قبول نہیں کی وہ گھر میں داخل نہیں ہوا اور دسترخوان سے کھانا نہیں کھایا،پھر انہوں نے کہا کہ اس کی ان کے لیے تفسیر کر دو تاکہ یہ سمجھ جائیں۔ بعض نے کہا کہ یہ تو سوئے ہوئے ہیں لیکن بعض نے کہا کہ آنکھیں گو سو رہی ہیں لیکن دل بیدار ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ گھر تو جنت ہے اور بلانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پس جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا وہ اللہ کی اطاعت کرے گا اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی کرے گا وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں»۔
مذکورہ حدیث بڑے صاف لفظوں میں اس بات کی وضاحت کررہی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف اور اللہ کی جنت کی طرف بلانے والے ہیں، آپ کی اطاعت جنت میں جانے کا ذریعہ ہے اور آپ کی اطاعت سے منہ موڑنا جنت کی راہ سے نہ صرف بھٹکنے بلکہ جنت سے محرومی کا باعث ہے۔
اتباع رسول e سے متعلق اسوۂ صحابہ:
صحابۂ کرام ]  نبی کریم e کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اپنی اتباع واطاعت کا امت کے لئے بہترین نمونہ چھوڑ گئے۔ چنانچہ آیئے ہم اتباع صحابہ کے چند واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔
صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر t کی روایت ہے کہ رسول اللہ e نے سونے کی انگوٹھی بنوائی تو صحابہ نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوالی ، پھر نبی e نے اپنے سونے کی انگوٹھی نکال پھینکی اور فرمایا: «میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا» تو صحابہ نے بھی اپنی انگوٹھیاں نکال پھینکی)[16](۔
نیز بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ عمرفاروق t نے حجر اسود کے پاس پہنچ کر اس کا بوسہ دیا اور فرمایا: "مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے تیرے اندر نفع ونقصان کی کوئی طاقت نہیں،اگر میں نے رسول اللہ e کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے بوسہ نہ دیتا")[17](۔
صحیح مسلم میں ابوالہیاج اسدی رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ علی t نے مجھ سے کہا:" کیا میں تمھیں وہ ذمہ داری دے کر نہ بھیجوں جو ذمہ داری دیکر مجھے رسول اللہ e نے بھیجا تھا، جو بھی مجسمہ دیکھنا اسے توڑدینا اور جو اونچی قبر دیکھنا اسے زمین کے برابر کردینا")[18](۔
مذکورہ تمام واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ اتباع رسول e کے معاملے میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم انتہائی بلند مرتبہ پر فائز تھے۔  خواہ کوئی بات ہو کسی طرح کی قیل وقال، رائے زنی،  چوں چرا اور دیگر اشکال نہیں پیش کرتے تھے بلکہ آگے بڑھ کر سرتسلیم خم کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اسی کی دعوت دیتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ یہی ان کی کامیابی کا اہم راز تھا، آج مسلمانوں کی ناکامی ونامرادی کا ایک اہم سبب اتباع رسول e کا نہ ہونا یا اس میں کوتاہی کا پایا جانا ہے۔
یاد رہے کہ صحابۂ کرام جہاں ایک طرف اتباع میں پیش پیش رہتے تھے وہیں اتباع کی خلاف ورزی کے معاملہ میں ان کا رویہ نہایت سخت تھا۔ چنانچہ آیئے اس تعلق سے چند واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔
صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر t کے صاحبزادے سالم کی روایت ہے کہ ایک بار عبداللہ بن عمر t نے نبی e کی ایک حدیث بیان فرمائی کہ نبی e نے فرمایا ہے کہ اگر عورتیں مسجد جانے کے لئے تم سے اجازت چاہیں تو انھیں مسجد جانے سے مت روکو، ان کے ایک صاحبزادے بلال نے کہا کہ ہم تو انھیں ضرور روکیں گے۔ سالم کہتے ہیں کہ عبداللہ t نے اس کی طرف متوجہ ہوکر اسے سخت بری گالی دی اس جیسی گالی میں نے ان سے کبھی نہیں سنی تھی، اور فرمایا: میں تجھ سے رسول اللہ e کی حدیث بیان کررہا ہوں اور تو کہتا ہے کہ ہم انھیں ضرور روکیں گے)[19](۔
بخاری ومسلم میں عبداللہ بن مغفل t  کی روایت ہے کہ انھوں نے ایک شخص کو کنکریوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کنکریاں پھینکنے کا کھیل مت کھیلو کیونکہ رسول اللہ e نے اس سے منع فرمایا ہے۔نیز آپ کا ارشاد ہے کہ اس سے نہ ہی شکار کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی دشمن کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہےبلکہ بسااوقات اس سے دانت ٹوٹ جاتے ہیں اور آنکھ پھوٹ جاتی ہے۔ یہ واقعہ ہوجانے اور اس حدیث کے بیان کردینے کے بعد ایک مرتبہ پھر اس شخص کو کنکریوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: میں نے تجھ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ e نے اس سے روکا ہے اس کے باوجود تو اس سے باز نہیں آتا، میں تجھ سے کبھی بات نہیں کروں گا)[20](۔
ائمۂ دین نے بھی ہمیشہ اتباع سنت کی تاکید کی ہے اور اس کے بالمقابل رائے وقیاس، حکایات ومنامات اور بے جا عقلیات وفلسفیات سے منع کیا ہے۔چنانچہ امام شعبی کی روایت ہے کہ قاضی شریح کے پاس قبیلۂ بنومراد کا ایک شخص آیا اور اس نے پوچھا: اے ابوامیہ! انگلیوں کی دیت کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا: دس دس اونٹ، اس نے کہا: سبحان اللہ ! کیا انگوٹھا اور چھوٹی انگلی دونوں برابر ہیں؟ قاضی شریح نے کہا: سبحان اللہ! کیا تمھارا کان اور تمھارا ہاتھ دونوں برابر ہیں ؟ کان اتنا چھوٹا ہے کہ کبھی بالوں سے اور کبھی ٹوپی سے چھپ جاتا ہے۔ جبکہ دونوں کی دیت نصف دیت ہے۔تمھارا برا ہو! یاد رکھو کہ سنت تمھارے قیاس سے آگے ہے ، اتباع کرو، بدعتی مت بنو،جب تک سنت وحدیث کو مضبوطی سے تھامے رہوگے گمراہ نہیں ہوگے۔ ابوبکر ہذلی کا بیان ہے کہ امام شعبی نے مجھ سے کہا: اے ہذلی! اگر تمھارے قبیلے ہذیل کا عقلمند وانصاف پرور سردار احنف  قتل کردیا جائے اور ایک گود میں پلتا بچہ قتل کردیا جائے تو دونوں کی دیت ایک ہوگی یا نہیں؟ میں نے کہا: ایک ہوگی؟ تو امام شعبی نے کہا: اب قیاس کہاں چلاگیا؟ یہ سنن دارمی[ح:۲۰۴] کی روایت ہے۔
امام اوزاعی فرماتے ہیں: "ہم ہمیشہ سنت کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، ہمیں سنت جہاں لے جائے وہاں جاتے ہیں"۔ اسے امام لالکائی نے اصول اعتقاد میں ذکر فرمایا ہے۔
ذرا غور کیجئے:
                یہاں پر تھوڑی دیر ٹھہر کر ہر بھائی سے مخلصانہ گذارش ہے کہ اپنے آپ سے کچھ اہم اور سنجیدہ سوال کرے۔
j    کیا میں نے جنت کی طرف بلانے والے کی تصدیق کرکے جنت کا راستہ پکڑلیا ہے؟
j    کیا میں نے جہنم سے ڈرانے والے کی بات مان کر جہنم سے بچنے کا راستہ اپنالیا ہے؟
اگر جواب ہاں میں ہے تو آپ بڑے خوش نصیب ہیں اور اگر جواب نہ میں ہے تو اس دن کی بدنصیبی کا کیا کہنا جب کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔
ارشاد باری ہے: ﴿وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا﴾ [الفرقان:۲۷] (اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی راه اختیار کی ہوتی(۔
اتباع رسول e کا تقاضا:
                آپ e کی اطاعت کرنے والے کو یہ خیال رکھنا بے حد ضروری ہے کہ آپ e کے نقش قدم پہ اپنا قدم رکھ کے چلے، اگر ذرا بھی دائیں بائیں ہوا تو نیک نیتی کام نہیں آئے گی۔ چنانچہ ایک حدیث ملاحظہ کیجئے:-
            عن أَنَس بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: جَاءَ ثَلاَثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا، فَقَالُوا: وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ أَحَدُهُمْ: أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلاَ أُفْطِرُ، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: «أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي»([21]).
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں  کہ «تین حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے، جب انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیاتو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر صلاۃ پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ صوم سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر صوم رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ صلاۃ پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے»۔
                اس حدیث میں دو باتیں بہت کھل کر آفتاب نصف النہار کی طرح ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔
1.     ہر وہ طریقہ مردود اور ناقابل قبول ہے جو سنت کے خلاف ہے خواہ اسے کتنی ہی نیک نیتی سے انجام دیا جائے۔
2.      سنت کو مضبوطی سے تھاما جائے، غلو، شدت پسندی اور رہبانیت وغیرہ سے گریز کیا جائے۔
گویا حدیث مذکور میں اتباع سنت اور اجتناب بدعت کی تعلیم دی گئی ہے جو فرقۂ ناجیہ کی ایک اہم ترین علامت ہے([22]
یہاں ایک بات خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلینے کی ضرورت ہے کہ اتباع سنت کا حصہ یہ بھی ہے کہ ہر وہ چیز جو سنت سے ٹکراتی ہو اور ہر وہ قول وعمل جو سنت کے منافی ہو اسے ترک کردیا جائے۔ مثال کے طور پر بدعت یا تقلید یا رائے وتخمین۔
بدعت کی خطرناکی معروف ہے، اس کی مذمت قرآن پاک میں بھی آئی ہے اور حدیث پاک میں بھی، نبی e اپنے ہر خطبہ میں بدعت سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے تھے:
«أمَّا بَعْدُ، فَإنَّ خَيْرَ الحَديثِ كِتَابُ الله ، وَخَيرَ الهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ - ﷺ- ، وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا ، وَكُلَّ بِدْعَة ضَلالَةٌ»([23]).   
«أما بعد، یقینا سب سے بہتر بات الله  کی کتاب ہے۔ سب سے بہتر طریقہ رسول اللہ e  کا طریقہ ہے۔سب سے بری چیز اس میں ایجاد کی ہوئی چیزیں ہیں۔اور ہر بدعت گمراہی ہے»([24]
تقلید کی خطرناکی بہت سارے لوگ نہیں سمجھتے۔ واضح رہے کہ کسی کی بات کو بے دلیل تسلیم کرنے کا نام تقلید ہے اور کسی کی بات کو دلیل کے ساتھ ماننے کا نام اتباع ہے۔ شریعت میں اتباع کی اجازت ہے اور تقلید کی ممانعت ہے۔ واضح رہے کہ تقلید کی ہر شکل ممنوع ہے۔
تقلید کی ایک شکل یہ ہے کہ کتاب وسنت سے منہ موڑ کر صرف اپنے آباؤ اجداد یا علماء ومشائخ کی پیروی کی جائے۔
تقلید کی دوسری شکل یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کی بات بے دلیل تسلیم کی جائے جس کے بارے میں مقلد کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کی بات قبول کرنے کے لائق ہے بھی کہ نہیں۔
تقلید کی تیسری شکل یہ ہے کہ حجت ودلیل آجانے کے بعد آدمی اپنے امام یا مقلَّد کے قول پر اڑا رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تقلید بدعتوں کا دروازہ ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے یہود ونصاری کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ [التوبۃ:۳۱] )ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے (۔
اس آیت کی شرح میں عدی بن حاتم t کی حدیث مروی ہے: قَالَ ﷺ: «أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ»([25]).
آپ e نے فرمایا: «خبردار! یہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن وہ اگر کسی چیز کو حلال کردیتے تھے تو یہ حلال مان لیتے تھے اور اگر وہ ان پر کوئی چیز حرام کردیتے تھے تو یہ حرام مان لیتے تھے»۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہود ونصاری نے تو علماء اور عبادت گذاروں کو اپنا رب بنایا تھا  لیکن یہ امت ان سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئی، آج علماء کے بجائے نام نہاد فقیہوں، بے علم مفتیوں اور جاہل مولوی ملاؤں نیز عبادت گذاروں کے بجائے بددین فقیروں، دنیا پرست پیروں، فریبی مرشدوں، خودساختہ مخدوموں، عیار گدی نشینوں، فرائض کے چھوڑنے والوں اور حرام کا ارتکاب کرنے والوں کو رب بنالیا گیا ہے۔
یہ تمام باتیں اتباع سنت کے خلاف اور حق رسول e کی عدم ادائیگی کا نتیجہ ہیں([26]
آپ e کے حق اتباع میں یہ بھی داخل ہے کہ آپ e کی نافرمانی سے بچا جائے۔
ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا﴾ [الأحزاب: ۳۶] )(یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا(۔
نیز ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾ [النساء:۱۱۵] (جو شخص راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے باوجود بھی رسول e کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے ، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا اور جہنم میں ڈال دیں گے، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔)
نبی e کی نافرمانی کرنے پر ایک مسلمان آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا ہی میں عبرتناک سزا سے دوچار ہوتا ہے، چنانچہ اس حوالہ سے یہ صحیح حدیث ملاحظہ ہو۔
عن سَلَمَة بْنِ الْأَكْوَعِ أَنَّ رَجُلًا أَكَلَ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِمَالِهِ, فَقَالَ: «كُلْ بِيَمِينِكَ», قَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ, قَالَ: «لَا اسْتَطَعْتَ», مَا مَنَعَهُ إِلَّا الْكِبْرُ, قَالَ: فَمَا رَفَعَهَا إِلَى فِيهِ([27]).
سلمہ بن اکوع t بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول e کے پاس بائیں ہاتھ سے کھانا کھایا، آپ e نے اسے حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: «اپنے داہنے ہاتھ سے کھاؤ»، اس نے جواب دیا: میں ایسا نہیں کرسکتا، آپ e نے فرمایا: «(اللہ کرے) تم ایسا کبھی نہ کرسکو»، کبروغرور کی بنا پر اس نے نبی e کے حکم کی تعمیل نہیں کی، چنانچہ وہ آئندہ کبھی اپنا داہنا ہاتھ اپنے منہ تک نہیں اٹھاسکا۔ (کیونکہ نبی e کی بددعا سے اس کا ہاتھ شل ہوگیا)۔
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے مسائل مستنبط کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حدیث سے بلاعذر حکم شرعی کی مخالفت کرنے والے پر بددعا کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، نیز یہ معلوم ہوتا ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر (بھلائی کا حکم دینا، غلطیوں کی اصلاح کرنا اور دینی خلاف ورزیوں پر ٹوکنا) ہرحال میں ہونا چاہئے یہاں تک کہ کھانے کی حالت میں بھی، نیز یہ معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کے دوران کھانے والوں کو کھانے کے آداب کی تعلیم دینا مستحب ہے([28]
غزوۂ احد میں شکست فاش کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ صحابۂ کرام y سے نبی e کی نافرمانی کا صدور ہوگیا تھا، آپ e نے نہایت سختی سے روکا تھا کہ جن تیراندازوں کو جبل رماۃ پر رکھا گیا ہے وہ کسی بھی حالت میں اپنی جگہ سے نہ ہٹیں گے لیکن وہ ہٹ گئے اور اسی راستہ سے کفار نے پلٹ کر وار کردیا جس کی بنا پر جیتی ہوئی جنگ شکست فاش میں تبدیل ہوگئی)[29](۔
مذکورہ آیات واحادیث اور اقوال سلف وواقعات سے یہ بات خوب اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اتباع رسول e ہرطرح کی برکتوں اور رحمتوں کا سبب ہے اس کے برخلاف رسول e کی مخالفت ہرطرح کی محرومیوں اور بدنصیبیوں کا باعث ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اتباع رسول e کی توفیق عطا فرمائے، اور آپ کی خلاف ورزی سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین



تیسرا حق:
آپ e سے سب سے زیادہ محبت کرنا)[30](
آپ e کا آپ کی امت پر ایک عظیم حق یہ بھی ہے کہ ساری مخلوق اور تمام کائنات سے بڑھ کر آپ سے محبت کی جائے۔
کسی شخص یا چیز کے اندر کسی خوبی وکمال کی بناپر اس سے قلبی تعلق اور اس کی طرف دل کے لگاؤ، جھکاؤ اور میلان کا نام محبت ہے۔  محبت دراصل دل کے اندر پائی جانے والی اس قوت کا نام ہے جو ایک انسان کو اس کی پسندیدہ چیز کے حاصل کرنے پر اور ناپسندیدہ چیزوں کے دفع کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ نے محبت کی حقیقت سے متعلق بڑا نفیس کلام کیا ہے جس کا مفہوم اس طرح ہے کہ ایک انسان سے جو چیزیں موافق اور ہم آہنگ ہوتی ہیں ان کی طرف وہ مائل ہوجاتا ہے اور یہی محبت کی حقیقت ہے۔ ان اشیاء کی طرف انسان کے میلان کی وجہ یا تو یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے احساس وادراک کی بنا پر ان سے لطف اندوز ہوتا ہے جیسے حسین چہرے، خوبصورت آوازیں، لذیذ کھانے اور مشروبات وغیرہ۔
یا اپنے عقل وقلب کے ذریعہ ان سے لطف اندوز ہوتا ہے جیسے عمدہ اوصاف کے حامل لوگ مثلا اچھے اخلاق وکردار کے علماء وصالحین یا شجاعت وبہادری  یا سخاوت وفیاضی سے متصف افراد وغیرہ۔
یا کسی کے انعام واحسان کی وجہ سے اس سے محبت ہوجائے کیونکہ ایک محسن سے محبت انسانی فطرت میں ودیعت ہے۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ کی مذکورہ تفصیل سے یہ بات عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ محبت کے اسباب تین ہیں:
Àظاہری اور محسوس خوبیاں،
Áمعنوی اوصاف وکمالات اور 
Âانعامات واحسانات۔
اگر دیکھا جائے تو یہ تینوں اسباب نبی اکرم e کی ذات گرامی میں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ آپ ہرطرح کی ظاہری اور باطنی خوبیوں سے آراستہ وپیراستہ تھے، امت پر آپ کے احسانات بھی بے شمار ہیں، آپ ہی کے ذریعہ ہدایت کی نعمت ملی ہے، جنت کا راستہ ملا ہے، اللہ کی معرفت حاصل ہوئی ہے اور صراط مستقیم کی پہچان ہوئی ہے۔ پھر بھلا آپ سے محبت کیوں نہ ہو؟ دل آپ کی طرف کیوں نہ کھنچتے ہوئے چلے جائیں؟؟۔
محبت کے تعلق سے یہ بات یاد رہے کہ اصل محبت اللہ کے لئے ہے اور باقی محبتیں اس کے تابع ہیں، اہل ایمان کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ﴾ [البقرة:۱۶۵] )اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں(۔ 
اور مشرکین کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ﴾ [البقرة:۱۶۵] )بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہئے(۔
مشرکین غیراللہ سے اللہ جیسی محبت کرتے ہیں جب کہ مومنین کی محبت اللہ واسطے، اللہ کی خاطر  اور اللہ کی راہ میں ہوا کرتی ہے۔
جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ اصل محبت اللہ کے لئے ہے اور باقی محبتیں اس کے تابع ہیں، اگر ہم کسی چیز سے محبت کرتے ہیں تو اس بنا پر کہ اس کا تعلق اللہ سے ہے مثال کے طور پر قرآن کریم سے محبت اس لئے ہے کہ وہ اللہ کا کلام ہے، کعبہ سے محبت اس لئے ہے کہ وہ اللہ کا گھر ہے، محمد e سے محبت اس لئے ہے کہ آپ اللہ کے نبی ورسول ہیں، مسلمانوں سے محبت اس لئے ہے کہ انھوں نے اللہ کی توحید کا کلمہ پڑھا ہے، ساری کائنات سے محبت اس لئے ہے کہ ساری کائنات اللہ کی مخلوق ہے۔
البتہ یہ بات واضح رہے کہ محبت کے درجات ہیں، محبت کم اور زیادہ ہوتی ہے، کوئی محبت اختیاری ہوتی ہے اور کوئی اضطراری، بہرحال یہ ان باتوں کی تفصیل کا موقع نہیں ہے، حسب ضرورت آئندہ ان پر گفتگو کی جائے گی۔
رسول اللہ e کی محبت ایک عظیم قلبی عبادت ہے، ہرمسلمان کے دل میں پایاجانے والا یہ ایک عظیم پاکیزہ جذبہ ہے جس کا شعور وادراک ہرمسلمان کو اپنے ایمان کی کمی بیشی کے مطابق ہوتا ہے۔ نہ یہ محض ایک عقلی ترجیح ہے اور نہ محض اطاعت کا نام ہے۔ ہاں، عقلی ترجیح اور اطاعت محبت کا ایک ثمرہ اور نتیجہ ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا البتہ وہ بذات خود محبت نہیں بلکہ محبت اس کی اساس ہے۔
محبت رسول e کا ایک تقاضا یہ ہے کہ ہماری خواہشات آپ e کی لائی ہوئی شریعت کے تابع ہوجائیں، جن لوگوں کی محبت اور خواہش رسول اﷲe  کی لائی ہوئی شریعت کے تابع نہیں ہے وہ کئی طرح کے لوگ ہیں:
×    ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو پوری طرح آپ کی شریعت سے بیزار ہیں ایسے لوگ کافر ہیں۔
×    دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنے دل سے بیزار ہیں لیکن زبان واعضاء سے اقرار کرتے ہیں ایسے لوگ منافق ہیں۔
×    تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو کبھی اپنی خواہش پہ چلتے ہیں اور کبھی شریعت پہ، حکموں کے اتباع میں کچھ کوتاہی کرتے ہیں اور بعض حرام کام کے مرتکب ہوتے ہیں, ایسے لوگ مومن فاسق ہیں، اپنے ایمان واتباع کی بنیاد پر مومن ہیں اور اپنی مخالفت ومعصیت کی بناپر فاسق ہیں۔
واضح رہے کہ ایمان کامل کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے دلوں میں ساری کائنات سے زیادہ رسول اکرم e کی محبت ہو، فرمان رسول ہے: عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ».([31])
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:« تم میں سے کوئی شخص صاحب ایمان نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے»۔
جب یہ محبت کسی کو حاصل ہوجاتی ہے تو کیا رنگ لاتی ہے آنے والی حدیث میں اس کا مشاہدہ کریں:
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّاعَةِ، فَقَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: «وَمَاذَا أَعْدَدْتَ لَهَا». قَالَ: لاَ شَيْءَ، إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ». قَالَ أَنَسٌ: فَمَا فَرِحْنَا بِشَيْءٍ، فَرَحَنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ» قَالَ أَنَسٌ: «فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَّاهُمْ، وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِهِمْ»([32])
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں پوچھا کہ قیامت کب قائم ہوگی؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کچھ بھی نہیں، سوا اس کے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتاہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہارا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہو گا جن سے تمہیں محبت ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں کبھی اتنی خوشی کسی بات سے بھی نہیں ہوئی جتنی آپ کی یہ حدیث سن کر ہوئی کہ تمہارا حشر انہیں کے ساتھ ہو گا جن سے تمہیں محبت ہے"۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتاہوں اور ان سے اپنی اس محبت کی وجہ سے امید رکھتاہوں کہ میرا حشر انہیں کے ساتھ ہو گا، اگرچہ میں ان جیسے عمل نہ کر سکا۔
مذکورہ حدیث نبی e اور آپ کے صحابہ سے محبت کرنے والوں کے لئے اپنے اندر زبردست بشارت رکھتی ہے۔
محبت رسول e کے معاملہ میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں: 1اہل افراط  2اہل تفریط  3اہل توسط
اہل افراط نے محبت کے نام پر بہت ساری بدعتیں ایجاد کرلی ہیں جو اللہ ورسول سے قریب کرنے کے بجائے دور کرتی ہیں۔ مثلا بدعت محفل میلاد([33])
ایسے ہی نعتوں، قوالیوں اور آپ کی تعریف ومنقبت میں غلو اور مبالغہ آرائی۔ یاد رہے کہ آپ e کی تعریف کرنا اور نعت پڑھنا برحق ہے بشرطیکہ غلو نہ ہو، شاعر رسول حسان t کے یہ نعتیہ اشعار بہت مشہور ہیں:
وأجمل منك لم تر قط عيني ... وأفضل منك لم تلد النساء
خُلقت مبرءا من كل عيبٍ ... كأنك قد خلقت كما تشاء([34])
                (میری آنکھوں نے کبھی آپ سے زیادہ خوبرو نہیں دیکھا، آپ سے زیادہ صاحب فضل کبھی کسی ماں نے جنم نہیں دیا، آپ ہر عیب سے مبرا پیدا کئے گئے، گویا آپ کو آپ کی چاہت کے مطابق پیدا کیا گیا)۔
                مبالغہ آمیز اشعار وقصائد کی چند مثالیں پیش ہیں:
قصیدۂ بردہ کے مندرجہ ذیل اشعار انتہائی غلو آمیز ہیں۔
يا أكرم الخلق ما لي من ألوذ به ...... سواك عند حلول الحادث العمم
فإن من جودك الدنيا وضرتها ........ ومن علومك علوم اللوح والقلم
کسی شاعر کے یہ اشعار کس قدر ایمان سوز ہیں کہ ان کے اندر اللہ کے بجائے نبی e سے رحم کی بھیک مانگی جارہی ہے۔
زمہجوری برآید جان عالم                             ترحم یا نبی اللہ ترحم
ایک اور شاعر کہتا ہے :
خالقِ کل    نے     آپ  کو      مالک ِکل   بنا دیا
دونوں جہاں ہیں آپ کے قبضہ واختیار میں
شاعری میں دلیل کی کبھی ضرورت نہیں ہوتی۔ شاعر کے منہ میں جو آئے بک جائے ۔ اسی لئے اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ * أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ﴾ [الشعراء:۲۲۴، ۲۲۵] (شاعروں کی پیروی وہ لوگ کرتے ہیں جو بہکے ہوئے ہوں۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ایک ایک بیابان میں سر ٹکراتے پھرتے ہیں)۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اپنے نبی کریم e  کو یوں مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ﴾ [آل عمران:۱۲۸] (اے پیغمبر ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں)
قرآن کی تعلیم ایک طرف کہ نبی کے اختیار میں کچھ نہیں اس کے برعکس یہ شاعر کہتا ہے کہ دونوں جہان آپ کے قبضہ واختیار میں ہیں۔ العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ۔
بلا عین کا عرب اور بلامیم کا احمد وغیرہ شرکیہ مبالغہ کی چند مثالیں ہیں([35]
اہل افراط نے اللہ کے بہت سارے حقوق رسول اللہ e کو دے دیئے، وہ رسول e سے دعا کرنے لگ گئے، آپ کی ذات اور جاہ ومرتبہ کا وسیلہ لینے لگ گئے، آپ ہی سے شفاعت مانگنے لگ گئے، آپ کے نام کی قسم کھانے لگ گئے، آپ کی قبر کا طواف اور قبر کی جالیوں کو چومنے اور بوسہ دینے لگ گئے، یہ ساری بدعتیں اور شرکیات محبت رسول کے نام پہ کی جانے لگی، جبکہ ایسا نہ کسی صحابی نے کیا تھا اور نہ کسی سلف صالح نے، اور نہ ہی شریعت میں اس کی اجازت ہے، اہل افراط نے اللہ اور اس کے رسول کا فرق ہی مٹادیا، دونوں کو ایک کردیا، جبکہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اس فرق کا صاف صاف اعلان کیا ہے، ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ﴾ [النور:۵۲] (جو بھی اللہ تعالی کی ، اس کے رسول کی فرماں برداری کریں ، خوف الہی رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہی نجات پانے والے ہیں)۔
اللہ تعالی نے آیت مذکورہ میں واضح کیا کہ اطاعت اللہ اور رسول کا مشترکہ حق ہے لیکن خشیت اور تقوی اللہ کا خاص حق ہے جس میں رسول e شریک نہیں ہیں۔
یہاں ایک مسئلہ وضاحت کے ساتھ سمجھ لینا ضروری ہے کہ اللہ تعالی اور رسول e  کے حقوق کو الگ الگ نہ جاننا گمراہی کا بہت بڑا سبب ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اللہ اور رسول کے مشترکہ حقوق بھی بیان کئے ہیں اور اللہ نے اپنا خاص حق بھی بیان کیا ہے جس میں رسول e شریک نہیں ہیں۔ عبادت وہ سب سے بڑا حق  ہےجس میں اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ارشاد ہے: ﴿قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ﴾ [الزمر:۱۱] (آپ کہہ دیجئے ! کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالی کی اس طرح عبادت کروں کہ اسی کے لئے عبادت کو خالص کرلوں)۔
نیز ارشاد ہے: ﴿فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ * وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ﴾ [الشرح:۷، ۸] (پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا)۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رغبت ،لالچ اور دل لگانا عبادت ہے جو صرف اللہ کا حق ہے۔
نیز ارشاد ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ [الأنفال:۶۴] (اے نبی! تجھے اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو جو تیری پیروی کررہے ہیں)۔
اس آیت میں اللہ نے بتایا کہ کافی ہونا صرف اللہ کا حق ہے۔
نیز ارشاد ہے: ﴿وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾ [المائدة:۲۳] (اور تم اگر مومن ہو تو تمھیں اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ توکل صرف اللہ کا حق ہے لہذا  اگر کوئی یہ کہے کہ مجھے اللہ و رسول پر توکل اور بھروسہ ہے تو اس نے شرک کا ارتکاب کیا ۔
نیز ارشاد ہے: ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ [القصص:۵۶] (آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ تعالی ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے ۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے)۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دلوں میں ہدایت ڈالنا صرف اللہ کا کام ہے، رسول اللہ e  کا کام نہیں ہے۔
نیز ارشاد ہے: ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ [الفاتحہ:۵] (ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں)۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مدد صرف اللہ سے مانگنی چاہئے جس نے غیراللہ کو مدد کے لئے پکارا اس نے شرک کیا، جس نے یا رسول اللہ مدد پکارا اس نے شرک کیا۔ جس نے یا علی مدد، یا غوث مدد پکارا اس نے شرک کیا۔
اہل افراط کے برخلاف اہل تفریط ہیں۔ انھوں نے نبی e کا حق ادا نہیں کیا۔ اپنی خواہشات کی بنا پر سنت سے منہ موڑا۔ یا یہ سمجھ لیا کہ ایمان صرف تصدیق کا نام ہے عمل کی ضرورت نہیں، جبکہ ایمان تصدیق قلبی، اقرار لسانی اور عمل جوارح کا نام ہے، یا پھر اپنی جہالت میں مگن ہیں ، نہ نبی کے حقوق کو سیکھا اور نہ ان کے ادا کرنے کی توفیق ہوئی۔ انھیں اہل تفریط میں وہ لوگ بھی تھے جن کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ﴾ [الحجرات:۴] )جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (بالکل) بے عقل ہیں(۔
اہل افراط اور اہل تفریط کے درمیان جو اہل توسط واعتدال ہیں وہی راہ حق اور صراط مستقیم پر ہیں، وہی سلف کے منہج پر ہیں، وہی صحابہ وتابعین اور ائمۂ دین کی روش پر قائم ہیں۔
یہی لوگ ہیں جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ آپ e سے محبت کرتے ہیں۔ اعتقادی، قولی اور عملی طور پر اس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ آپ پر ایمان رکھتے ہیں، آپ کی نبوت ورسالت کی تصدیق کرتے ہیں، حسب استطاعت آپ کی اطاعت وفرماں برداری میں لگے رہتے ہیں۔ آپ کا اسوہ اپناتے اور آپ کے حکموں کی تعمیل کرتے ہیں۔ آپ پر صلاۃ وسلام بھیجتے ہیں۔ جب نام آئے e کہتے ہیں۔ آپ کی تائید ونصرت اور آپ کا دفاع کرتے ہیں۔ آپ کی تعظیم وتکریم اور آپ کا احترام واجلال کرتے ہیں۔ آپ کی حدیثوں اور سنتوں کی قدر کرتے ہیں۔ انھیں سیکھتے سکھاتے اور ان کی نشر واشاعت میں لگے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی غلو اور مبالغہ آرائی سے خود بھی پرہیز کرتے ہیں اور اس سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں۔
اہل توسط صحابہ وتابعین کے راستہ پر ہیں جن کی محبت وفدائیت کے چند نمونے ملاحظہ ہوں۔
|   اللہ کے نبی e نے مال خرچ کرنے کا حکم دیا ابوبکر t اپنا پورا مال لے کے آگئے۔
|   عثمان t نے اپنے مال خاص سے پورے لشکر تبوک کا انتظام کیا۔
|   علی t ہجرت کی رات پورے اطمینان کے ساتھ نبی e کے بستر پر لیٹ گئے جبکہ اس میں اتنا زبردست خطرہ تھا کہ جان جانے کا اندیشہ بھی تھا۔
|  طلحہ t کے ہاتھ احد کے میدان میں کفار کے تیروں کو نبی e تک پہنچنے سے روکتے ہوئے چھلنی چھلنی ہوگئے۔
تاریخ اسلام کے صفحات اس طرح کے بے شمار واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔



چوتھا حق:
آپ e کی تعظیم وتوقیر کرنا
امت پر آپ e کا ایک عظیم حق یہ بھی ہے کہ امت آپ کی تعظیم وتوقیر کرے اور آپ  کا ادب واحترام بجالائے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ﴾ [الفتح:۹] )تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو(۔
نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ * يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ﴾ [الحجرات:۱، ۲] )اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو کہ) تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو (۔
واضح رہے کہ اللہ ورسول سے آگے بڑھنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کی اجازت یا امر ونہی سے پہلے کوئی قدم ازخود اٹھائے، اور نبی e کی آواز سے اپنی آواز اوپر کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ اپنے افکار ونظریات کو آپ کی سنت سے اوپر کیا جائے۔
نبی e کے ادب واحترام کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ کی احادیث مل جانے پر اپنے اور دوسروں کے ان آراء وقیاسات کو ترک کردیا جائے جو اس سے معارض یا مدمقابل ہیں۔
آیئے! نبی e کے ادب واحترام میں اسوۂ صحابہ y پر ایک طائرانہ نظر ڈال لیتے ہیں۔
                صحابہ y پر آپ e کی ہیبت طاری رہتی تھی۔ ایک بار آپ e نے ظہر کی صلاۃ دو رکعت پڑھائی، کسی کو آپ سے بات کرنے کی جرأت نہیں ہوئی جب کہ وہاں ابوبکر وعمر y بھی موجود تھے)[36](۔
                صحابہ y آپ کی باتیں ہمہ تن گوش ہوکر سنتے تھے اور آپ کی مجلس میں یوں بیٹھتے تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں)[37](۔
                صحابہ y کو اس بات کا خوف لگا رہتا تھا کہ آپ کے ادب واحترام میں کہیں کوئی کمی نہ ہوجائے۔ ایک بار اللہ کے نبی e نے ثابت بن قیس t کو جو آپ کے خطیب تھےغائب پایا، معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وہ اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے رورہے ہیں کہ میری آواز نبی e کی آواز سے بلند ہوجاتی تھی، کہیں میں جہنمی تو نہیں ہوگیا۔ آپ کو نبی e نے خوشخبری دی کہ آپ جنتی ہیں)[38](۔
                واضح رہے کہ آپ e کی وفات کے بعد بھی آپ کا وہی احترام باقی ہے جو آپ کی زندگی میں تھا، آپ کا ذکر مبارک ہو یا آپ کی حدیثوں اور سنتوں کا چرچا ہو یا آپ کی سیرت پاک کا تذکرہ ہو یا آپ کے اہل بیت وصحابہ کی بات ہو، ان تمام امور میں تعظیم واحترام کا رویہ ضروری ہے۔
                آپ کی حدیثوں کے احترام میں ائمہ دین کے بے شمار واقعات ہیں۔
                آپ e کی مسجد کا احترام آپ کے احترام کا حصہ ہے۔ عمر t کی حدیث ہے:
عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كُنْتُ قَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ فَجِئْتُهُ بِهِمَا قَالَ مَنْ أَنْتُمَا أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا قَالَا مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ قَالَ لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)[39](۔
«سائب بن یزید  نے بیان کیا کہ میں مسجدنبوی میں کھڑا ہوا تھا، کسی نے میری طرف کنکری پھینکی۔ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سامنے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سامنے جو دو شخص ہیں انہیں میرے پاس بلا کر لاؤ۔ میں بلا لایا۔ آپ نے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے یا یہ فرمایا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دئیے بغیر نہ چھوڑتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟»



پانچواں حق:
آپ e پر صلاۃ وسلام بھیجنا
امت پر آپ e کا ایک عظیم حق یہ بھی ہے کہ امت آپ پر صلاۃ وسلام بھیجے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ [الأحزاب:۵۶] )اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر صلاۃ بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر صلاۃ بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو(۔
نیز حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ بھیجنے  کے بکثرت فضائل وارد ہیں۔ ہم آئندہ سطور  میں چند فضائل ذکر کررہے ہیں۔
نبی e پر صلاۃ پڑھنے کے فضائل :
۱۔ اللہ کی جانب سے صلاۃ پانے  کا سبب:
رسول اللہ e نے فرمايا : «جو مجھ پر ايک مرتبہ صلاۃ بھیجتا ہے اللہ تعالی اس پر اپنی دس صلاتیں بھیجتا  ہے»)[40](۔
2۔ درجات کی بلندی اور برائيوں میں کمی کا سبب:
نبی رحمت e نے فرمايا : « جو مجھ پر ايک مرتبہ صلاۃ بھیجتا ہے اللہ تعالی اس پر اپنی دس صلاتیں بھیجتا  ہے، اس کی دس برائيوں کو مٹاديتا ہے اور اس کے درجات میں دس گنا اضافہ کرديتا ہے»)[41](۔ 
3۔ گناہوں کی مغفرت اور تفکرات سے نجات کا ذريعہ:
اُبی بن کعب t نے نبی e سے عرض کيا : اے اللہ کے رسول ! میں کثرت کے ساتھ آپ پر صلاۃ بھيجا کرتا ہوں ، اپنی دعاؤں میں سے کتنا اس کے لئے خاص کردوں؟آپe نے فرمايا: جتنا چاہو۔ ابی نے عرض کيا کہ ايک چوتھائی؟ آپ e نے فرمايا : اگر تم اس سے بھی زيادہ پڑھو تو تمھارے لئے بہتر ہے ويسے تم جتنا پڑھ سکو۔ اُبی نے کہا تو پھر نصف؟ آپ نے فرمايا :اگر تم اس سے بھی زيادہ پڑھو تو تمھارے لئے بہتر ہے ويسے تم جتنا پڑھ سکو۔ اُبی نے کہا تو پھر میں اپنی دعاؤں میں آپ پر صلاۃ ہی پڑھاکروں گا۔ تو آپ e نے فرمايا: پھر تو يہ تمھارے تمام افکار وآلام کی طرف سے کفايت کرے گااور تمھارے گناہ بخش ديئے جائيں گے)[42](۔ 
4۔ نبی اکرم e کی شفاعت کا حق:
رسول اللہ e کا ارشاد ہے : «جس نے صبح وشام دس دس مرتبہ ميرے اوپر صلاۃ بھيجا،وہ قيامت کے دن ميری شفاعت کا حقدار ہوگيا)[43](»۔
5۔ اللہ کے رسول e کے سامنے نام کا ذکر:
رسول رحمت e فرماتے ہيں : «ميرے اوپر بکثرت صلاۃ بھيجا کرو،اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی نے ميری قبر کے پاس ايک فرشتہ متعین کرديا ہے ، جب ميری امت کا کوئی فرد مجھ پر صلاۃ بھیجتا ہے تو وہ فرشتہ مجھ سے کہتا ہے کہ اے محمد e : فلاں کے بيٹے فلاں نے اس وقت آپ پر صلاۃ بھيجا ہے»)[44](۔
6۔ لغويات سے مجالس کی پاکی کا ذريعہ:
اللہ کے رسول e نے فرمايا : «کوئی قوم جب کہیں جمع ہوتی ہے اور اللہ کے ذکر اور نبی e  پر صلاۃ بھیجے بغير اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو گويا وہ مردار کی بدبو کے پاس سے اٹھتی ہے»)[45](۔
7۔ دعا کی قبوليت کا سبب :
علی بن ابی طالب t فرماتے ہيں کہ ہر دعا اور اس کی قبوليت کے درميان ايک حجاب ہوتا ہے حتی کہ نبی اکرم e پر صلاۃ بھيجا جائے)[46](۔
8۔ بخل سے دوری :
اللہ کے رسول e نے ارشاد فرمايا: «وہ شخص بخیل ہے جس کے پاس ميرا تذکرہ ہو اور وہ مجھ پر صلاۃ نہ بھیجے»)[47](۔
9۔ جنت کی راہ کا انتخاب :
رسول محترم e کا فرمان ہے : «جس نے مجھ پر صلاۃ بھیجنا ترک کرديا وہ جنت کی راہ کے انتخاب میں چوک گيا»)[48](۔
نبی e پر صلاۃ پڑھنے کے اوقات ومقامات :
1۔ آخری تشہد میں:
کعب بن عجرہ t کہتے ہيں کہ ہم نے اللہ کے رسول e سے عرض کيا: اللہ تعالی نے ہم لوگوں کو آپ پرصلاۃ پڑھنے کا حکم ديا ہے تو بتايئے کہ کس طرح پڑھا کريں؟ آپ نے فرمايا : سلام کے کلمات تو تم جانتے ہی ہو صلاۃکے لئے يہ کلمات کہا کرو :  اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ([49])
2۔ صلاة جنازہ میں :
ابو امامہ بن سہل t کی روايت ہے: ايک صحابی نے انھيں بتايا کہ صلاة جنازہ میں مسنون يہ ہے کہ امام تکبیر کہے اور پہلی تکبیر کے بعد امام آہستہ آواز سے سورہ فاتحہ پڑھے پھر نبی اکرم e پرصلاۃ پڑھے اور بعد کی تکبیرات میں ميت کے لئے توجہ واخلاص کے ساتھ دعا کرے اور کچھ نہ پڑھے پھر سرّی طور پر سلام پھیر لے)[50](۔
3۔ جمعہ اور عيدين وغيرہ کے خطبہ میں :
علی t سے مروي ہے کہ انھوں نے منبر پر چڑھنے کے بعد اللہ تعالی کی حمد وثنا بيان کی پھر نبی e  پر صلاۃ بھیجا پھر فرمايا: «ابوبکرt اورعمرt اللہ کے آخری نبی e کے بعد اس امت کے بہترین افراد تھے»)[51](۔
4۔ اذان کے بعد :
اللہ کے رسول e کا ارشاد ہے : « جب اذان پکاری جائے تو تم مؤذن کے مثل کلمات کو دہراؤپھر ميرے اوپرصلاۃ پڑھو اس لئے کہ جو مجھ پر ايک بار صلاۃ  پڑھتا ہے تو اس کے بدلہ اللہ تعالی اس پر اپنی دس صلاتیں بھیجتا ہے۔ پھر ميرے لئے اللہ سے وسیلہ طلب کرو کيونکہ وسیلہ جنت میں ايک ايسا مقام ہے جس پر اللہ کے کسی ايک ہی بندے کو فائز کياجائے گا اور مجھے اميد ہے کہ وہ بندہ میں ہوں ، اس لئے جس نے ميرے لئے اللہ سے وسیلہ طلب کيا وہ ميری شفاعت کا حقدار ہوگيا»)[52](۔
5۔ دعا کے وقت :
اس کی دليل میں علی t کی روايت گذرچکی ہے ۔
6۔ مسجد ميں داخل ہوتے اور اس سے نکلتے وقت :
اللہ کے رسول e جب مسجد ميں داخل ہوتے تو يہ دعا پڑھتے تھے : اللهم صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَسَلِّم , رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ اور جب مسجد سے باہر نکلتے تو يہی دعا پڑھتے تھے البتہ اخیر میں  أَبْوَابَ فَضْلِكَ کہا کرتے تھے)[53](۔
7۔ مجلس اور اجتماع کے وقت:
نبی اکرم e نے فرمايا : «جب لوگ کہیں بیٹھتے ہيں اور اللہ کے ذکر اور نبیe پر صلاۃ پڑھے بغير اٹھ کھڑے ہوتے ہيں تو (قيامت کے دن) ايسے لوگ حسرت وياس کی کيفيت میں مبتلا ہوں گے ۔ اللہ تعالی چاہے گا تو انھیں مبتلائے عذاب کرے گا اور چاہے گا تو بخش دے گا»)[54](۔
8۔ نبی اکرم e کا ذکر مبارک آنے پر :
اللہ کے رسول e نے فرمايا : «بخیل ہے وہ شخص جس کے سامنے ميرا تذکرہ آئے اور وہ مجھ پر صلاۃ نہ پڑھے»)[55](۔ 
9۔ دن کے آغاز واختتام پر :
ارشاد نبوی e ہے : «جس نے صبح وشام دس دس بار مجھ پرصلاۃبھيجا وہ قيامت کے دن ميری شفاعت کا حقدار ہوگيا »)[56](۔
10۔ جمعہ کے دن :
رسول اکرم e نے فرمايا : «جمعہ کے دن ميرے لئے کثرت کے ساتھ صلاۃ پڑھا کرو اس لئے کہ اس دن کی ہر صلاۃ مجھ پر پيش کی جاتی ہے»)[57](۔
                ان خصوصی اوقات کے علاوہ جب بھی انسان صلاۃ بھیجنا چاہے اس کی ممانعت نہیں ہے بلکہ جگہ اور موقع کی تخصیص کئے بغیر جس قدر زيادہ صلاۃ بھیجے گا اجر وثواب حاصل کرے گا ۔اللہ توفيق دے۔
تنبيہ:
                آخر میں بعض بدعتوں پر تنبيہ کرنا ضروری ہے ،جو حسب ذيل ہيں:
(۱) صلاۃ وسلام کے لئے قيام کرنانبی e، صحابۂ کرام y، محدثين اور ائمۂ دين رحمہم اللہ کسی سے ثابت نہيں ۔
(۲) اذان سے پہلے اور بعد میں بہ آوازبلند صلاۃ وسلام پڑھنا۔ کہیں کہیں اقامت سے پہلے اور فرض صلاۃ ختم ہوجانے  کے بعدايسا کيا جاتا ہے۔يہ سب بدعت ہے۔
(۳)  خود ساختہ کلمات والفاظ کے ذريعہ صلاۃ پڑھنا مثلاً درود لکھی، درود ہزاری، صلاۃ تاج،صلاۃ الفيہ،صلاۃتنجینا،صلاۃ ناريہ وغيرہ? يہ تمام کے تمام صلاۃ لوگوں کے گھڑے ہوئے ہيں، کتاب وسنت سے ان کا کوئی ثبوت نہيں۔
                اللہ تبارک وتعالی مسلمانوں کی اصلاح فرمائے، انھيں صحيح وثابت اعمال کی توفيق دے اور خودساختہ امور وبدعات سے محفوظ رکھے۔آمین



چھٹا حق:
آپ e کی ذات میں غلو سے پرہیز کرنا
امت پر آپ e کا ایک عظیم حق یہ بھی ہے کہ امت آپ کے سلسلہ میں غلو سے پرہیز کرے۔ آپ e کا فرمان ہے: « لاَ تُطْرُونِي، كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ، وَرَسُولُهُ.»([58])
»میرے بارے میں اس طرح مبالغہ نہ کرو جس طرح نصرانیوں نے مریم کے بیٹے عیسی علیہ السلام کے بارے میں کیا ہے، میں تو اللہ کا ایک بندہ ہوں لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو«۔
قرآن مجید میں ان باتوں پر خصوصی تنبیہ کی گئی ہے جن میں غلو کا خطرہ زیادہ تھا، چنانچہ وہ چند باتیں ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں:
۱۔ نبی e کی بشریت اور عبودیت پر قرآن وحدیث میں خاص تاکید کی گئی کیونکہ اس مضمون میں ہی سابقہ امتیں گمراہی کا شکار ہوچکی تھیں۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ﴾ [الكهف:۱۱۰] (فرمادیجئے کہ میں تمھیں جیسا ایک بشر ہوں، البتہ میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا [سچا] معبود صرف ایک ہی معبود ہے)۔
نیز ارشاد فرمایا: ﴿قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا﴾ [الإسراء:۳۹] (آپ کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار پاک ہے، میں تو صرف ایک انسان ہی ہوں جو رسول بنایا گیا ہوں(۔
مزید ارشاد فرمایا: ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ﴾ [الإسراء:۱] (پاک ہے وہ ذات جو اپنے  بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجداقصی تک لے گیا(
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا﴾ [الكهف:۱] (تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی(۔
اور اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی e بشر تھے اور بالکل ہم جیسے بشر، لیکن اس کا یہ مفہوم قطعی نہیں کہ اللہ کے نزدیک درجہ ومرتبہ میں، اللہ کی معرفت میں، اللہ کی خشیت وانابت میں آپ ہماری طرح تھے نعوذباللہ ، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ بھی ہماری طرح آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے، آپ کے بھی ماں باپ تھے، آپ کا بھی خاندان تھا، آپ کو بھی بھوک وپیاس لگتی تھی، آپ کو بھی سردی وگرمی لگتی تھی، آپ کو بھی چوٹ لگتی تھی اور درد ہوتا تھا، آپ کو بھی زخم آتے تھے اور آپ کے بدن سے بھی خون بہتا تھا، آپ نے بھی شادیاں کی تھیں، آپ بھی صاحب اولاد تھے، آپ بھی کھاتے پیتے اور لباس پہنتے تھے، آپ بھی بازاروں میں جاتے اور خریدوفروخت کرتے تھے، آپ کو بھی قضاء حاجت کی ضرورت پیش آتی تھی، آپ بھی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے، پلے بڑھے جوان ہوئے، پھر عمر ڈھلی اور وفات پائی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
۲۔ قرآن پاک میں بار بار تاکید کی گئی کہ نبی e کو ربوبیت والوہیت کی کوئی خصوصیت حاصل نہیں، چنانچہ ارشاد ہے:
﴿قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ﴾ [الأنعام:۵۰] )آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں(۔
نیز ارشاد فرمایا: ﴿قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ [الأعراف:۱۸۸] )آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں(۔
۳۔ قرآن مجید میں اس بات پر بھی تنبیہ کی گئی کہ اگر نبیوں کو رب بنالیا جائے گا تو کفر ہوجائے گا۔  چنانچہ ارشاد ہے:
﴿وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾ [آل عمران:۸۰] )اور یہ نہیں (ہو سکتا) کہ وه تمہیں فرشتوں اورنبیوں کو رب بنا لینے کا حکم کرے، کیا وه تمہارے مسلمان ہونے کے بعد بھی تمہیں کفر کا حکم دے گا(۔
آپ کی ذات میں غلو کی بدترین صورت یہ ہوگی کہ آپ کو رب بنالیا جائے، آپ سے دعائیں مانگی جائیں، آپ سے مدد طلب کی جائے، آپ سے فریاد کی جائے، آپ کی قبر کی طرف منہ کرکے صلاۃ پڑھی جائے، آپ کے لئے ذبح وقربانی یا نذر ونیاز کیا جائے۔ وغیرہ
اصحاب غلو کا فریب:
غلو کرنے والے افراد امت کو کس طرح فریب دیتے ہیں اس کا جان لینا بھی ضروری ہے تاکہ ہم ان کے دام فریب میں نہ آسکیں۔
۱۔ یہ لوگ کبھی کبھار اپنے مقصد کے لئے قرآنی آیات اور صحیح احادیث کو پیش کرتے ہیں لیکن اس کی تشریح سلف صالحین اور صحابہ وتابعین کے فہم کے مطابق نہیں کرتے بلکہ اس کی من مانی تشریح وتفسیر کرتے ہیں۔
۲۔ عام طور پر یہ لوگ ضعیف وکمزور اور موضوع ومن گھڑت روایات واحادیث کا سہارا لیتے ہیں جن کو کسی طرح دلیل بنانا جائز نہیں۔
۳۔ ایسے ہی یہ لوگ جھوٹی حکایات اور قصے کہانیوں پر اعتماد کرتے ہیں۔
۴۔ ایسے ہی یہ لوگ منامات اور خوابوں کو دلیل بناتے ہیں جو یا تو جھوٹی اور خودساختہ ہوتی ہیں یا شیطانی فریب ہوتی ہیں۔
۵۔ یا یہ لوگ ایسے لوگوں کو بزرگ بناکر پیش کرتے ہیں جن کا صحیح دین سے درحقیقت کوئی تعلق نہیں تھا پھر ان کے اقوال واحوال کو دلیل بناتے ہیں۔
۶۔ یا پھر اپنے ذوق، اپنی رائے، اپنے فلسفہ اور لفظی تک بندیوں سے عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔



ساتواں حق:
آپ e کا دفاع کرنا
امت پر نبیe کا ایک عظیم حق یہ بھی ہے کہ امت آپ e کا تمسخر کرنے والوں سے دشمنی رکھے اور اپنی طاقت بھر آپ e کا دفاع کرے۔
یوں تو اللہ تعالی نے فرمادیا ہے: ﴿ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾ [الحجر:۹۵] )آپ سے جو لوگ مسخرہ پن کرتے ہیں ان کی سزا کے لئے ہم کافی ہیں(۔
لیکن ہمارا حق یہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں  سے دشمنی رکھیں کیونکہ:
۱۔ نبی e کا استہزاء اور تمسخر کرنے والا کافر ومرتد ہے۔ قرآن کریم میں نہایت واضح لفظوں میں اعلان ہے: ﴿قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ * لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ [توبۃ:۶۵، ۶۶] )کہہ دیجئے کہ اللہ ، اس کی آیتیں اور اس کارسول ہی تمھارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں؟ تم بہانے نہ بناؤ یقینا تم اپنے ایمان کے بعد کافر ہوگئے(۔
۲۔ تمسخر واستہزاء مومن تو درکنار کسی عاقل کا بھی کام نہیں۔ قرآن مجید کے اندر موسی علیہ السلام اور آپ کی قوم کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو قابل غور ہے، ارشاد ہے: ﴿وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ﴾ [البقرة:۶۷] )اور موسی علیہ السلام نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالی تمھیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے، تو انھوں نے کہا: کیاآپ ہم سے مذاق کررہے ہیں؟ موسی علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں ایسا جاہل ہونے سے اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں(۔
۳۔ تمام انبیاء کا مذاق اڑایا گیا۔ مقولہ مشہور ہے کہ ہر پھل دار درخت کو پتھر مارے جاتے ہیں۔ انبیاء کو ساحر وکاہن کہا گیا، ان کا مذاق اڑایاگیا، ان کے ساتھ تمسخر کیا گیا، ان کو بدنام اور رسوا کرنے کی کوشش ہوئی، ان کو قتل کی دھمکی دی گئی  بلکہ قتل بھی کیا گیا، تاریخ شاہد ہے کہ اللہ نے ایسے بدبختوں کو سزادی، ہمیں یقین کامل ہے کہ ہمارے نبی e کا مذاق اڑانے والے بھی سزا سے ہرگز نہیں بچ سکتے۔ ارشاد باری ہے: ﴿يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ﴾ [الصف:۸] )وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھادیں، اور اللہ اپنے نور کو کمال تک پہنچانے والا ہے گو کافر برا مانیں(۔



آٹھواں حق:
آپ e کے صحابہ وآل بیت سے محبت رکھنا
امت پر آپ e کا ایک عظیم حق یہ بھی ہے کہ امت آپ کے صحابہ وآل بیت اور ازواج مطہرات سے محبت رکھے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کرے۔ انھیں برا بھلاکہنے اور عیب گیری کے ساتھ نشانہ بنانے اور ان پر تہمتیں لگانے سے نیز ان کے بارے میں کوئی ایسی بات کہنے سے جس سے ان کی توہین یا تنقیص ہوتی ہو پرہیز کرے۔
قرآن مجید کے اندر اللہ تبارک وتعالی نے مال فے کے اندر مہاجرین وانصار کے حق کے تذکرے کے بعد ارشاد فرمایا: ﴿وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (الحشر:۱۰) )اور ]فے کا مال ان کے لیے بھی ہے[ جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے(۔
آیت اس بات پر واضح طور پر دلالت کررہی ہے کہ صحابہ کے بعد آنے والوں کا رویہ صحابہ سے متعلق کیسا ہونا چاہئے۔
واضح رہے کہ صحابہ کے فضائل ومناقب اور ان کی نیکیوں کے سمندر کے سامنے ان باتوں کی حیثیت تنکوں کی بھی نہیں ہے جن سے ان کی شان میں تنقیص نظر آتی ہے۔
رسول اکرم e کے آل بیت کی محبت بھی آپ e کے حقوق میں سے ایک اہم حق ہے۔
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ «رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام خمکے پانی کے مقام پر خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف کو بیان کیا اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر فرمایا کہ اس کے بعد اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا )موت کا فرشتہ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، تین بار فرمایا۔ اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ علی، عقیل، جعفر اور عباس کی اولاد ہیں۔ حصین نے کہا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں)[59](»۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی e نے دوچیزیں چھوڑی ہیں ایک اللہ کی جانب سے نازل کردہ وحی جس کی روشنی میں صراط مستقیم پر گامزن رہنا ہے اور دوسری چیز اہل بیت جن کے احترام وتعظیم اور حقوق کی ادائیگی  میں اللہ کو یاد رکھنا ہے، اللہ کے حکم کے مطابق انھیں ان کا مقام ومرتبہ دینا ہے نہ ہی کوتاہی کرنا ہے اور نہ غلو اور حد سے تجاوز۔
مراجع ومصادر
1-        القرآن الكريم
2-        الجامع الصحيح للإمام البخاري
3-        الجامع الصحيح للإمام مسلم
4-        جامع الإمام الترمذي مع تخريج الشيخ الألباني
5-        سنن أبي داود مع تخريج الشيخ الألباني
6-        سنن النسائي مع تخريج الشيخ الألباني
7-        سنن ابن ماجة مع تخريج الشيخ الألباني
8-        صحيح الجامع الصغير للشيخ الألباني
9-        سلسلة الأحاديث الصحيحة والضعيفة للشيخ الألباني
10-   الشفا بتعريف حقوق المصطفى للقاضي عياض
11-   حقوق النبي صلى الله عليه وسلم على أمته لمؤلفه محمد بن خليفة التميمي
12-   مكانة الرسول صلى الله عليه وسلم وحقوقه لمؤلفه الشيخ ربيع بن هادي بن عمير المدخلي
13-   التأدب مع الرسول لمؤلفه حسن نور حسن
14-   أصول الإيمان في ضوء الكتاب والسنة لنخبة من العلماء نشرته وزارة الشؤون الإسلامية بالمملكة العربية السعودية
15-   موسوعة الدفاع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم جمعها ورتبها علي بن نايف الشحود




[[1]] جب میدان محشر میں آدم علیہ السلام سے لے کر آخری انسان تک جمع ہوں گے اور اس کی ہولناکیوں کو جھیل رہے ہوں گے لوگ شفاعت کی غرض سے اپنے باپ آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے، وہ اپنی غلطی اور فی الحال اللہ کے شدید ترین غضب کا ذکر کرکے شفاعت سے انکار کردیں گے، اس کے بعد اللہ کے پہلے رسول نوح  علیہ السلام کے پاس جائیں گے، وہ بھی معذرت کردیں گے، اس کے بعد لوگ ابراہیم علیہ السلام اور موسی وعیسی علیہم السلام کے پاس جائیں گے یہ لوگ بھی شفاعت سے انکار کردیں گے، پھر لوگ رحمت عالم e کے پاس آئیں گے اور آپ شفاعت فرمائیں گے اور اللہ رب العزت آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا۔ یہ شفاعت عظمی ہے جو آپ e کے لئے مخصوص ہے۔ اس کا ذکر صحیحین میں موجود ہے۔
[[2]] مقام محمود وہ مقام ہے جب ساری مخلوق آپ کی تعریف کرے گی، شفاعت عظمی اور میدان محشر کے دیگر مواقف اس میں شامل ہیں۔
[[3]] "وسیلہ" جنت کا ایک مخصوص مقام ہے جو اللہ کے نبی e کے ساتھ خاص ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں اس کی وضاحت آئی ہے۔
([4])  تفسیر طبری ۱۷/۱۱۸.
([5]) اس حدیث کو امام مسلم نے  كتاب  المساجد ومواضع الصلاة باب  النهى عن بناء المساجد على القبور میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۵ باب :۳ حديث:۲۳-(۵۳۲)۔
([6]) صلاۃ کا ترجمہ رحمت سے کرنا ضعیف ہے، صلاۃ رحمت سے بڑی کوئی اور  چیز ہے جس میں رحمت کے علاوہ مدح وثنا، تبریک وتقریب اور رفع ذکر وغیرہ داخل ہے جیسا کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کی تحقیق فرمائی ہے۔ ملاحظہ ہو جلاء الافہام کا تیسرا باب صفحہ ۹۴ تا ۱۱۹۔
([7]) اس حدیث کو امام مسلم نے  كتاب  الايمان, باب  وجوب الإيمان برسالة نبينا محمد e (کتاب :۱ باب :۷۰ حديث:۲۴۰- (۱۵۳)) میں روایت کیا ہے۔  
([8]) اس حدیث کو امام أبوداود نے  كتاب الفتن والملاحم, باب ذكر الفتن ودلالتها  (کتاب:۲۹ باب:۱ حديث:۴۲۵۲) اور امام ترمذي نے كتاب الفتن ، باب ما جاء لا تقوم الساعة حتى يخرج كذابون (کتاب :۳۴ باب:۴۳ حديث:۲۱۴۵) اور امام  أحمد نے (۲۱۳۶۱) میں روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ )سلسلہ صحیحہ/ ۱۹۹۹(
([9]) یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری نے  كتاب المناقب، باب خاتم النبيين (کتاب :۶۵ باب :۱۶ حديث:۳۳۴۲)  اور امام مسلم نے  كتاب الفضائل باب ذكر كونه صلى الله عليه وسلم خاتم النبيين  میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۴۳ باب :۷ حديث:۲۲-(۲۲۸۶))۔
([10])اس حدیث کو امام أبوداود نے  كتاب العلم, باب في كتابة العلم (کتاب :۱۹ باب :۳ حديث:۳۶۴۶) اور امام  أحمد نے (۶۵۱۰) میں روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔( السلسلۃ الصحيحۃ, حديث: ۱۵۳۲)۔
([11])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں متعدد مقامات پر لائے ہیں،  كتاب الشهادات باب من أقام البينة بعد اليمين (کتاب :56 باب :27 حديث:2534) كتاب الحيل باب إذا غصب جارية فزعم أنها ماتت (کتاب :94 باب:9 حديث:6566)  كتاب الأحكام باب موعظة الإمام للخصوم (کتاب :97 باب :20 حديث:6748) اور امام مسلم نے اسے  كتاب الأقضية باب الحكم بالظاهر واللحن بالحجة میں روایت کیا ہے۔ (کتاب:30باب :3 حديث:4-(1713))۔
([12])اس حدیث کو امام بخاری نے  كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة باب الاقتداء بسنن رسول الله صلى الله عليه وسلم میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۹۹باب :۲ حديث:۶۸۵۱)
([13])اس حدیث کو امام أبوداود نے  كتاب السنة, باب في لزوم السنة (کتاب:۳۹ باب:۶ حديث:۴۶۰۷) اور امام ترمذي نے أبواب العلم ، باب باب ما جاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع (کتاب :۳۹ باب:۱۶ حديث:۲۶۷۶) اور امام  أحمد نے (۱۷۱۸۴) میں روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
([14])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری نے  كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة باب الاقتداء بسنن رسول الله صلى الله عليه و سلم میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۹۹باب :۲ حديث:۶۸۵۴) اور امام مسلم نے اسے  كتاب الفضائل باب شفقته صلى الله عليه و سلم على أمته میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۴۳باب :۶ حديث:۱۶-(۲۲۸۳))۔
([15])اس حدیث کو امام بخاری نے  كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة باب الاقتداء بسنن رسول الله صلى الله عليه و سلم میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۹۹باب :۲ حديث:۶۸۵۲)
([16])اس حدیث کو امام بخاری نے  كتاب اللباس میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۷۷باب :۴۷ حديث:۵۸۶۷)
([17])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری نے  كتاب الحج باب ما ذکر فی الحجر الاسود وباب تقبيل الحجر میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۲۵باب :۴۹،۵۹حديث:۱۵۹۷، ۱۶۱۰) اور امام مسلم نے اسے  كتاب الحج باب اسْتِحْبَابِ تَقْبِيلِ الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فِي الطَّوَافِ میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۱۵باب :۴۱ حديث:۲۵۰-(۱۲۷۰))۔
([18])اس حدیث کو امام مسلم نے  كتاب  الجنائز باب  الامر بتسوية القبر  میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۱۱ باب :۳۱ حديث:۹۳-(۹۶۹)۔
([19])اس حدیث کو امام مسلم نے  كتاب الصلاة باب خروج النساء إلى المساجد -- میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۴ باب :۳۰ حديث:۱۳۵-(۴۴۲)۔
([20])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری نے  كتاب الذبائح والصيد باب الخذف والبندقة میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۷۲باب :۵ حديث:۵۴۷۹) اور امام مسلم نے اسے  كتاب الصيد والذبائح باب إباحة ما يستعان به على الاصطياد والعدو، وكراهة الخذف میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۳۴باب :۱۰ حديث:۵۴-(۱۹۵۴))۔
([21])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری نے  كتاب النكاح باب الترغيب في النكاح میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۷۰باب :۱ حديث:۴۷۷۶) اور امام مسلم نے اسے  كتاب النكاح باب استحباب النكاح لمن تاقت نفسه إليه میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۱۶باب :۱ حديث:۵-۱۴۰۱(۔
([22]) ہماری کتاب ((فرقۂ ناجیہ کا منہج)) ملاحظہ کیجئے۔
([23])اس حدیث کو امام مسلم نے  كتاب الجمعة باب تخفيف الصلاة والخطبة میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۷باب :۱۳ حديث: ۴۳- ۸۶۷)
([24]) ہماری کتاب ((بدعت کی پہچان اور اس کی تباہ کاریاں)) ملاحظہ کیجئے۔
([25])اس حدیث کو امام ترمذی نے  كتاب تفسير القرآن, باب تفسير سورة التوبة (کتاب:۴۸ باب :۱۰ حديث:۳۰۹۵) اور علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔( السلسلۃ الصحيحۃ, حديث: ۳۲۹۳)۔
([26]) ہماری کتاب ((ایک غیرمقلد کی توبہ، توبہ توبہ)) ملاحظہ کیجئے۔
([27])اس حدیث کو امام مسلم نے  كتاب الأشربة باب آداب الطعام والشراب میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۳۶باب :۱۳ حديث: ۱۰۷- ۲۰۲۱)
([28]) ہماری کتاب ((کھانے پینے کے آداب)) دیکھئے۔
([29]) ملاحظہ ہو الرحیق المختوم اردو صفحہ ۳۵۸-۳۵۹
([30]) بعض لوگ اللہ اور اس کے رسول e کی محبت کے لئے عشق کا لفظ استعمال کرتے ہیں حالانکہ یہ انتہائی نامناسب لفظ ہے کیونکہ عشق عربی زبان کا لفظ ہونے کے باوجود نہ قرآن میں اللہ تعالی نے اسے اپنے لئے استعمال کیا اور نہ اپنے رسول کے لئے اور نہ کسی اور کے لئے  اور نہ کسی صحیح حدیث میں اللہ کے رسول e سے ہی یہ ثابت ہے کہ آپ نے اسے کبھی اپنی زبان مبارک سے ادا کیا ہو، حد تو یہ ہے کہ کسی ضعیف حدیث میں بھی یہ لفظ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے لئےوارد نہیں ہوا۔ ائمۂ سلف اور علماء محققین نے کبھی اللہ اور اس کے رسول e کی محبت کے لئے عشق کا لفظ استعمال نہیں کیا ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس غیرموزوں لفظ سے ہماری زبان کی بھی حفاظت فرمائے۔ آمین
([31])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری نے  كتاب الإيمان باب حب الرسول صلى الله عليه وسلم من الإيمان میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :2باب :7 حديث:15) اور امام مسلم نے اسے  كتاب الإيمان باب وجوب محبة رسول الله صلى الله عليه و سلم أكثر من الأهل والولد والوالد میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :1باب :16 حديث:70-44(۔
([32])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری نے  كتاب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب مناقب عمر بن الخطاب رضي الله عنه میں روایت کیا ہے۔ (کتاب: 62باب :6 حديث:3688) اور امام مسلم نے اسے  كتاب البر والصلة والآداب باب المرء مع من أحب  میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :45باب :50 حديث:163-2639(۔
([33]) ہماری کتاب ((محفل میلاد چند قابل غور نکتے)) ملاحظہ کیجئے۔
([34]) ملاحظہ ہو ديوان حسان بن ثابت ص 12.
([35]) ہماری کتاب ((غلو کے کرشمے)) ملاحظہ کیجئے۔
([36])اس حدیث کو امام بخاری نے  أبواب المساجد باب تشبيك الأصابع في المسجد میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :11باب :54 حديث:468)
([37]) اس حدیث کو امام أبوداود نے  كتاب الطب, باب في الرجل يتداوى میں روایت کیا ہے۔ (کتاب:۲۹ باب:۱ حديث:3857) اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
([38])اس حدیث کو امام بخاری نے  كتاب التفسير باب تفسير سورة الحجرات میں روایت کیا ہے۔ (کتاب : 68باب :328 حديث:4565)
([39])اس حدیث کو  امام بخاری نے  أبواب المساجد، باب رفع الصوت في المساجد  (کتاب:11 باب:۴۹ حديث:458)  میں روایت کیا ہے۔

([40])اس حدیث کو امام مسلم نے  كتاب الصلاة باب الصلاة على النبي بعد التشهد میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :4باب :17 حديث: 70- 408)
([41])اس حدیث کو امام نسائی نے  كتاب صفة الصلاة باب الفضل في الصلاة على النبي میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :۱۱باب :۵۵ حديث: 1297) اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ (صحیح الجامع الصغیر, حديث: ۶۳۵۹)۔
([42])اس حدیث کو امام ترمذی نے  كتاب صفة القيامة والرقائق والورع کے اندر فقط باب کا عنوان دے کر روایت کیا ہے۔ (کتاب :۳۸باب :۲۳ حديث: 2457) اور علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔(السلسلۃ الصحیحۃ, حديث: ۹۵۴)۔
([43]) اس حدیث کو علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔ (صحيح الجامع/6357)
([44]) اس حدیث کو علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔ (سلسلہ صحیحہ/1530)
([45]) اس حدیث کو علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔ (صحيح الجامع/ 5506)
([46]) اس موقوف حدیث کو علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔ (صحيح الجامع/ 4523)
([47])اس حدیث کو امام ترمذی نے  كتاب الدعوات باب قول الرسول رغم أنف رجل کے تحت روایت کیا ہے۔ (کتاب :49باب :101 حديث: 3546) اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
([48])اس حدیث کو امام ابن ماجہ  نے  كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم کے تحت روایت کیا ہے۔ (کتاب :5باب :25 حديث: 908) اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
([49])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری نے  كتاب أحاديث الأنبياء باب قول الله تعالى: واتخذ الله إبراهيم خليلا میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :64باب :12 حديث:3119) اور امام مسلم نے اسے  كتاب الصلاة باب الصلاة على النبي بعد التشهد میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :4باب :17 حديث:66-(406))۔
([50])اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک میں كتاب الجنائز میں روایت کیا ہے۔ (جلد1 صفحہ512) اور امام ذہبی وعلامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ )احکام الجنائز مسئلہ نمبر79(
([51])اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ (جلد1 صفحہ106حدیث:837 ) اورمحقق کتاب شعیب ارناؤط نے اس کی سند کو قوی قرار دیا ہے۔
([52])اس حدیث کو امام مسلم نے  كتاب الصلاة باب القول مثل قول المؤذن میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :4باب :7 حديث: 11- 384)
([53])اس حدیث کو امام ترمذی نے  أبواب الصلاة باب ما يقول عند دخوله المسجد کے تحت روایت کیا ہے۔ (کتاب :2 حديث: 314) اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
([54]) اس حدیث کو امام ترمذی نے  أبواب الدعوات باب في القوم يجلسون ولا يذكرون الله کے تحت روایت کیا ہے۔ (کتاب :45 حديث: 3380) اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
([55])اس حدیث کو امام ترمذی نے  أبواب الدعوات کے اندر(کتاب :45 حديث: 3546) اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
([56])اس حدیث کو علامہ البانی نے پہلے حسن قرار دیا تھا )دیکھئے صحيح الجامع، حدیث: 6357) بعد میں رجوع کرکے ضعیف قرار دیا۔ )دیکھئے سلسلہ ضعیفہ، حدیث: 5788(
([57])  اس حدیث کو علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔  )دیکھئے صحيح الجامع، حدیث: 2212)
([58])  اس حدیث کو  امام بخاری نے  كتاب أحاديث الأنبياء، باب واذكر في الكتاب مريم ... (کتاب نمبر۶۴ باب نمبر ۴۹ حديث نمبر۳۲۶۱)  میں روایت کیا ہے۔
([59])اس حدیث کو امام مسلم نے  كتاب الفضائل باب من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :44باب :4 حديث: 36- 2408)

0 تبصرے:

آپ بھي اپنا تبصرہ تحرير کريں

اہم اطلاع :- غير متعلق,غير اخلاقي اور ذاتيات پر مبني تبصرہ سے پرہيز کيجئے, مصنف ايسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نيز مصنف کا مبصر کي رائے سے متفق ہونا ضروري نہيں۔

اگر آپ کے کمپوٹر ميں اردو کي بورڈ انسٹال نہيں ہے تو اردو ميں تبصرہ کرنے کے ليے ذيل کے اردو ايڈيٹر ميں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے ميں کاپي پيسٹ کرکے شائع کرديں۔