2012-07-25

مقدمۂ مؤلف

0 تبصرے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مقدمۂ مؤلف
                الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد المرسلين, أما بعد :
                سنا ہے کہ اسلاف کے مایۂ ناز بزرگ،مشہور عالم، مناظر اسلام، شیر پنجاب مولانا ابوالوفا ثناء اﷲامرتسری رحمہ اﷲ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ حضرت مجھے بہت عجلت ہے، ٹرین سے سفر کرنا ہے، ایک ضروری مسئلہ پوچھنے کے لئے حاضر خدمت ہوا ہوں، مسئلہ ایسا مختصر بتائیے کہ ٹرین چھوٹنے نہ پائے اور بات مکمل بھی ہوجائے۔ مولانا نے فرمایا : کہو کیا پوچھنا چاہتے ہو ؟ اس نے عرض کیا : حضرت ! سورۂ یوسف کی تفسیر اتنی مختصر کیجئے کہ ٹرین بھی نہ چھوٹنے پائے اور تفسیر بھی مکمل ہو۔ مناظر اسلام مانے ہوئے حاضر جواب تھے، فوراً فرمایا: پیرے بود، پسرے داشت،گم کرد،باز یافت۔ (ایک بزرگ تھے، ان کا ایک بیٹا تھا، بزرگ نے اس کو گم کردیا اور پھر اس کو پاگئے) آپ نے اتنی جامع تفسیر فرمائی کہ سائل کو مکمل طور پر تسلی ہوگئی، بہت خوش ہوا اور سلام کرکے اپنی راہ لی۔
                اس گہما گہمی کے دور میں جب کہ لوگوں کو مرنے کی بھی فرصت نہیں ہے مولانا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میں نے بھی سوچا کہ حضور اکرم سیدالأولین والآخرین محمد مصطفی e کی ایسی مختصر سوانح لکھوں کہ قاری ایک ہی نشست میں آنحضور e  کے بارے میں مکمل بنیادی معلومات حاصل کرلے اور کتاب پڑھتے ہوئے اسے اکتاہٹ بھی محسوس نہ ہو۔ اﷲ تعالی اس عظیم سعادت کی توفیق عطافرمائے۔آمین
                ویسے تو یہ کسی کے بس کی بات نہیں کہ آپ e  کی جامع اور مکمل تصویر چند صفحات میں پیش کرسکے کیونکہ پورا قرآن وحدیث آپ کے اوصاف کمال کا مرقع ہے لیکن مَا لا يُدْرَكُ كُلُّهُ لا يُتْرَكُ جُلُّه کے مطابق بنیادی معلومات پیش خدمت ہیں۔
                الحمدﷲ کتاب حاضر ہے، پڑھئے اور مجھ کو بھی دعائے خیر میں یاد رکھئے۔ ان شاء اﷲ اس کتاب میں رسول اﷲ e  کے بارے میں مختصراً سب کچھ ملے گا۔
                پہلے یہ کتاب عام قارئین کے لئے تحریر کی گئی تھی مگر بعد میں بعض اہل علم احباب کے مشورے سے یہ رائے سامنے آئی کہ اسے مختلف اسباق میں تقسیم کردیا جائے اور بچوں کے لئے سیرت رسول e  سے متعلق ایک درسی کتاب کی حیثیت دے دی جائے چنانچہ اس پر عمل کیا گیا۔ اب ذمہ داران مدارس کو دیکھنا ہے کہ وہ اس محنت کی حوصلہ افزائی کس طرح کرتے ہیں۔!!
                الحمد ﷲ یہ میری کتاب محمد رسول اﷲ e   کا تیسرا ایڈیشن مع تصحیح واضافہ طبع ہونے جارہا ہے۔ رب العالمین کا اس کی نعمت وکرم ونوازش پر بے انتہا شکر گذار ہوں کہ اس نے مجھ ناچیز کو اپنے پیارے رسول e  کی سیرت پاک سے متعلق نصابی انداز میں کچھ لکھنے کی توفیق وسعادت نصیب فرمائی اور پھر اسے عوام الناس میں قبولیت بخشی۔اللہ تعالی اسے آخرت میں بھی مقبول اور باعث نجات بنائے۔ آمین۔
                ہمارے دینی مدارس ومکاتب کے نصاب تعلیم میں یہ وہ عظیم خلا تھا جسے ارباب نظر نہ صرف محسوس کرتے تھے بلکہ مختلف مواقع پر اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔ سیرت نبوی سے متعلق ہمارے طلبہ وطالبات اور عوام الناس کی معلومات حد درجہ ناقص اور محدود ہے۔ اس کتاب کے ذریعہ اسی خلا کو پر کرنے کی ادنی کوشش کی گئی ہے اور الحمد ﷲ اس کتاب کو قارئین کی جانب سے پوری توجہ، مقبولیت اور پذیرائی بھی ملی۔ لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا، علماء نے حوصلہ افزائی کی، اہل خیر نے بڑی تعداد میں خرید کر مفت تقسیم کیا، ذمہ داران مدارس نے قدردانی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے داخل نصاب کیا اور شکریہ کے مستحق ہوئے۔
                آج ہم اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن نئے رنگ وروپ اور نئی سج دھج کے ساتھ نیز مختلف اصلاح وتغییر اور حذف واضافہ کے ساتھ ہدیۂ ناظرین کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں اور اہل علم سے التماس کرتے ہیں کہ اگر اب بھی کوئی کمی، خامی،کوتاہی یا غلطی نظر آئے تو ہمیں ضرور مطلع فرمائیں۔ ان شاء اﷲ شکریہ کے ساتھ اگلے ایڈیشن میں اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ کمال تو بس اﷲ کے لئے ہے انسان خطا ونسیان کا پتلا ہے۔
                اس موقع پر ہم اپنے فرزند عزیز مولانا عبد الہادی علیم مدنی سلمہ اﷲ العلی العظیم کی علمی وعملی ترقیوں کے لئے رب العالمین سے دعا گو ہیں جنھوں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے اندر کلیۃ الحدیث میں تعلیم پائی اور امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی ہے۔ آں عزیز اس کتاب کی تسوید وتبییض میں میرے خاص معاون رہے، اس پر نظر ثانی کی اور طباعت واشاعت کے مرحلے کو بحسن وخوبی انجام تک پہنچانے کے لئے پوری جد وجہد کی۔
                یہ عجب حسن اتفاق ہے جو یقینا اﷲ تعالی کی تقدیر اور مشیت سے ہے کہ:
                ٭ دوشنبہ(سوموار) کادن جو رسول اﷲ e  کی زندگی کا نہایت اہم دن ہے، اسی دن آپ کی ولادت ہوئی، اسی دن آپ کو نبوت ملی، اسی دن آپ کی وفات ہوئی، اسی دن ابتدائے نزول قرآن اور ہجرت وغیرہ جیسے دیگر اہم امور انجام پائے اسی مبارک دن اس کتاب کا بھی مقدمہ طبع اول اور مقدمہ طبع ثالث تحریر کیا گیااور یہ خاتمہ بھی اسی دن مکمل ہورہا ہے۔ [موجودہ ایڈیشن میں پرانا ہر مقدمہ اور خاتمہ ایک ہی عنوان سے یکجا کردیا گیا ہے، مقدمہ طبع اول ١٧جمادی الثانیۃ ١٤١٠ھ مطابق ١٥جنوری ١٩٩٠ء بروزسومواراور مقدمہ طبع ثالث ٣رمضان المبارک ١٤١٧ھ مطابق ١٣جنوری ١٩٩٧ء  بروز سوموار اور خاتمہ ٢شوال ١٤١٧ھ مطابق ١٠فروری ١٩٩٧ء  بروز سوموار کو تحریر کیا گیاتھا]
                ٭اس کتاب میں اکیس اسباق ہیں جو نبوت سے سرفراز کئے جانے کی تاریخ ہے۔
                ٭یہ کتاب تریسٹھ (٦٣) صفحات پر مشتمل ہے اور پیارے نبی e  کی حیات مبارکہ بھی تریسٹھ سال کی تھی۔
                قارئین اس کتابچہ کا مطالعہ کرنے کے بعد اس حقیر کے حق میں دعائے مغفرت کرنا نہ بھولیں۔
                اے اﷲ ! ہم سب کو اپنے نبی مکرم e  کے اسوۂ حسنہ پر چلنے اور آپ کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمارے دلوں میں اﷲ ورسول کی محبت ایسی بھردے کہ دوسروں کی محبت کے لئے اس میں جگہ نہ رہ جائے۔آمین
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وعلى آله وأصحابه وأزواجه وذرياته وأهل بيته أجمعين برحمتك يا أرحم الراحمين, ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم.
                                                                                   حقیر سراپا تقصیر
عبد الخالق خلیق ایس نگری
کاشانۂ خلیق۔ اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر
یوپی۔ انڈیا

عرض ناشر

0 تبصرے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
عرض ناشر
                الحمد ﷲ زیر نظر کتاب کے دسیوں ایڈیشن طبع ہوکر قبول عام حاصل کرچکے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اس قیمتی کتاب کی تالیف پر مولانا عبد الخالق خلیق رحمہ اﷲ کو جزائے خیر عطا فرمائے، ان کی مغفرت کرے،ان پر رحمتوں کی بارش کرے اورانھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔آمین
                مولانا عبد الخالق خلیق رحمہ اﷲ کی وفات حسرت آیات ١٢رمضان المبارک ١٤٢٢ھ مطابق ٢٨نومبر ٢٠٠١ ء بروز بدھ کو ہوئی۔ 
رَبِّ اغْفِرْلَہُ وَارْحَمْہُ وَعَافِہِ وَاعْفُ عَنْہُ۔
                آپ اپنی عمر کی چھٹی دہائی سے گذررہے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو بڑی بابرکت زندگی عطا فرمائی تھی۔ آپ ہندوستان کے مشہور صوبہ اترپردیش کے معروف ضلع سدھارتھ نگر کے رہنے والے تھے۔ سدھارتھ نگر پہلے ضلع بستی میں شامل تھا اسی لئے آپ اپنی نسبت میں بستوی لکھا کرتے تھے۔ اپنے آبائی گاؤں بڈھی خاص میں جو قصبہ بسکوہر بازار کے قریب ہے آپ سب سے پہلے عالم ہوئے اور وہاں کے دینی مکتب مدرسہ عربیہ قاسم العلوم کی تاسیس میں زبردست کردار ادا کیاپھر وہاں سے بیرہوا منتقل ہوگئے۔ وہاں ایک مسجد تعمیر کی اورجب تک بیرہوا رہے پورے گاؤں کی دینی قیادت کرتے رہے،ہمیشہ جمعہ وعیدین کے خطبے خود آپ یا آپ کے صاحبزادے دیاکرتے۔
                پھر جب آپ کے فرزنداکبر ڈاکٹر عبدالمالک خان علم طب کی تکمیل کرکے واپس ہوئے تو آپ نے ان کے لئے قریبی قصبہ اٹوا میں دواخانے کا بندوبست کیا اور پھر رفتہ رفتہ پورے طور پر مع اہل وعیال خود بھی اٹوا منتقل ہوگئے۔اٹوا کے مکان پر ''کاشانۂ خلیق'' کابورڈ خود اپنے دست مبارک سے لکھاجو اب تک آپ کی یادگار ہے۔ اٹوا اور قرب وجوار میں آپ کی عزت وشہرت پہلے سے تھی، یہاں پہنچنے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا۔
                آپ کے فرزندان مولانا عبدالباری کلیم محمدی ندوی اور عبدالباقی نسیم خان نے مل کر والد محترم کی نگرانی میں ایک مطبعہ قائم کیا۔ رفتہ رفتہ بقیہ فرزندان حافظ عبدالوالی شمیم اور عبدالکافی وسیم خان بھی طباعتی امور میں دلچسپی لینے لگے لہذا مطبعہ نے کافی ترقی کی لیکن بعد میں یہ مطبعہ اپنوں کی حماقتوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کی نذر ہوگیا۔ وکان أمر اللہ قدراً مقدوراً۔
                 والد محترم رحمہ اﷲ نے شیخ الحدیث مولانا عبد السلام صاحب بستوی رحمہ اﷲ سے دورۂ حدیث کرکے سند فراغت حاصل کی تھی۔ اسی بنا پر آپ جامعہ ریاض العلوم دہلی کی نسبت سے اپنے آپ کو ریاضی بھی لکھا کرتے تھے۔ ابناء جامعہ ریاض العلوم دہلی کے تذکرہ پر ترتیب دی گئی کتاب کے لئے آپ نے اپنی خودنوشت سوانح بھی لکھی تھی۔
                 آپ اپنی دعوتی واصلاحی ذمہ داریوں کا ہمیشہ احساس رکھتے تھے۔ آپ ایک عمدہ خطیب، قابل مدرس، اچھے شاعر اور بہترین صحافی بھی تھے۔ تدریس کے لئے سب سے زیادہ مدت آپ نے گینسڑی بازار کو دی ہے۔ آج بھی وہاں آپ کے شاگرد آپ کو یاد کرتے، تعریف کرتے اور دعائیں دیتے ہیں۔
                 خطابت میں آپ کا اپنا جداگانہ اور منفرد انداز تھا۔ کچھ دنوں تک بمبئی مومن پورہ کی جامع مسجد اہل حدیث میں امامت وخطابت کا فريضہ بھی انجام دیا ہے۔ آپ کی تقریر بڑے ذوق وشوق اور دلچسپی سے سنی جاتی تھی۔آپ دوران تقریر ہنساتے بھی تھے اور رلاتے بھی۔ شرک وبدعت خصوصاً قبر پرستی کے خلاف شمشیر بے نیام تھے۔ سمجھانے اور بات کہنے کا انداز ایسا پیارا تھا کہ سخت سے سخت مخالف بھی سوچنے اور غور کرنے پر مجبور ہوجاتا۔ جمعہ کے خطبوں اور اجتماعات وجلسوں کے علاوہ بھی درس قرآن وحدیث کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ مسجد کرامت اٹوا جو گھر کے بالکل قریب ہی واقع ہے عمر کے آخری حصہ میں آپ کی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کامرکز تھی۔
                مولانا عبد الخالق خلیق رحمہ اﷲ کو اﷲ تعالی نے چھ بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ آپ نے ان کی تعلیم وتربیت پر بھر پور توجہ دی۔ آپ کے فرزندان نہ صرف اپنے صوبے یوپی سے نکل کر راجستھان اور مہاراشٹر تک حصول تعلیم کی غرض سے پہنچے بلکہ بیرون ملک (سعودی عرب ) تک گئے اور پھر دعوت وتبلیغ کے میدان کا پرچم سنبھالا۔
                آپ دیار حرم مکہ ومدینہ کی مقدس سرزمین دیکھنے کے بڑے متمنی اور آرزومند تھے۔ آپ کی ایک نظم اس طرح شروع ہوتی ہے۔
مسلمان ہوں میں تمنا ہے میری
کہ اک بار بیت الحرم دیکھ لیتا
                چنانچہ اﷲ تعالی نے آپ کی یہ تمنا پوری کی اور آپ کو ١٤٢٠ھ میں فريضۂ حج وزیارت مسجد نبوی سے مشرف فرمایا۔ والدہ محترمہ بھی ساتھ ساتھ تھیں۔ اﷲ تعالی بروز قیامت اسے آپ کی نیکیوں کے ترازو میں رکھے۔ آمین۔ الحمد ﷲ خاکسار کو اس موقع پر مکہ ومنیٰ وعرفات میں آپ کی خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔
                والد محترم رحمہ اﷲ کا تخلص خلیق تھا او رآپ عملًا بھی نہایت خلیق اور ملنسار تھے۔ نہایت خوش مزاج اور ظریفانہ طبیعت کے حامل تھے۔ جو آپ سے ملتا پہلی ہی ملاقات میں اتنی قربت محسوس کرتا جیسے پرانے شناسا ہوں یا قدیم یارانہ ہو۔
                والد محترم رحمہ اﷲ نہایت باکمال اور زود رقم خوشنویس تھے۔ آپ کی زیادہ تر خدمات اسی میدان میں ہیں۔ صحیح بخاری معہ اردوشرح مطبوعہ ادارہ نورالایمان دہلی آپ ہی کی کتابت کردہ ہے۔ جامعہ سلفیہ بنارس، جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر نیپال اور الدارالسلفیہ بمبئی نیز دیگر بہت سے اداروں کی کئی مطبوعات آپ کے ہاتھوں کی کتابت شدہ ہیں۔
                والد محترم رحمہ اﷲ کی زیر نظر تصنیف سیرت نبوی e  پر بچوں کے لئے بہترین درسی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی کتابت بھی آپ ہی کے دست مبارک سے تھی لیکن چھٹا ایڈیشن موجودہ ترقیات کو سامنے رکھتے ہوئے کمپیوٹر پر کردیا گیا۔ ساتویں اور آٹھویں ایڈیشن کو مزید بہتر اور خوبصورت بنانے کی کوشش کی گئی۔ اﷲسے دعا ہے کہ باری تعالیٰ اس کتاب کو آپ کے لئے صدقۂ جاریہ بنائے۔
                موجودہ ایڈیشن میں متعدد بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں تاکہ عصر حاضر کی ترقی یافتہ تعلیمی نصابی کتابوں کے نہ صرف دوش بدوش چل سکے بلکہ ان میں اپنی ایک انفرادی اور امتیازی شان رکھے۔ چونکہ الولد من كسب أبيه   لہذا ان ساری تبدیلیوں کو والد صاحب ہی کے نام سے موسوم رکھا گیا ہے۔ اﷲ تعالی ان کوششوں کو مبارک اور بارآور کرے۔ آمین
                عموماً یہ کتاب درجہ چہارم کے طلبہ کو پڑھائی جاتی ہے لیکن اگر کوئی تعلیمی ادارہ اس سے نیچے یا اوپر کے درجات میں اسے داخل نصاب کرنا چاہے تو اپنے معیار کے مطابق ایسا کرسکتا ہے۔ اس سے اس کی افادیت میں ان شاء اﷲ کوئی کمی نہ ہوگی۔
                ضرورت ہے کہ اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا کر اس کے نفع کو عام کیا جائے تاکہ نبی پاک e سے متعلق پائی جانے والی جہالت کا خاتمہ کیا جاسکے۔ جو لوگ اس کتاب کی اہمیت وافادیت کو سمجھتے ہیں انھیں اس کا تعارف مزید آگے بڑھانا چاہئے اور اس کی نشرواشاعت میں ہرممکن حصہ لینا چاہئے۔ وباﷲ التوفیق
طالب دعا
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق۔اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر۔ یوپی۔ انڈیا
داعی احساء اسلامک سینٹر۔ سعودی عرب

غلاف کا صفحہ ٹائٹل کتاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

0 تبصرے